اک عمر اثر ہونے تک از واجد ابرار ۔ پہلی قسط
- Qalmkar
- Feb 15, 2019
- 90 min read
ویسے تم مجھ پر کہانی کیوں لکھ رہی ہو؟ کیا کوئی خاص بات ہے مجھ میں,
عامر نے خلاف توقع سنجیدگی سے پوچھا ,
میرے خیال میں تمہیں کوئی بہت بڑی غلط فہمی ،بلکہ خوش فہمی ہوئی ہے کہ میں تم پر کہانی لکھ رہی ہوں۔ تم پر ضائع کرنے کیلئے اتنا فضول وقت نہیں ہے میرے پاس ۔۔۔میں نے کہانی میں صرف تمہارا نام استعمال کیا ہے۔۔۔ اور اس دنیا میں صرف تمہارا نام عامر نہیں ہے۔ سحر کا لہجہ کافی لاپرواہ سا تھا۔
اوہ! اچھا اگر ایسی بات ہے تو تم پچھلے ایک گھنٹے سے میرے ساتھ کیا کررہی ہو؟
عامر نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا ۔
ٹائم پاس کرنے کیلئے , تم کو پتہ ہے کہ ڈرائیور تین بجے آتا ہے اور آج عمبرین بھی نہیںآئی ورنہ تمہارے ساتھ تو ایک لمحہ بھی گزارنا مشکل ہے ۔وہ قدرے بے زار انداز میں بولی جبکہ عامر کے چہرے پر خفگی کے تاثرات اب واضح ہوچکے تھے۔
ٹھیک ہے میں چلتا ہوں ۔۔۔ویسے بھی مجھے کوئی ڈرائیور تو لینے نہیں آتا ۔۔۔بسوں پر لٹک کر جانا پڑتا ہے، اور شہر کے حالات خراب ہوتے بھی پتہ نہیں چلتا۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور یونیورسٹی کے مین گیٹ کی جانب بڑھا,
تم تو برا ہی مان گئے , میں تو مذاق کررہی تھی۔
اچھا ایک منٹ رکو, سحر نے اُس کا ہاتھ پکڑا
اب کیا ہے ؟؟ عامر نے مڑ کر سحر کی جانب دیکھا ,
حد سے زیادہ حساس ہو تم, چھوٹی سے بات پر آنکھیں لال کرلیں ۔سحر نے اس کی سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
حساس نہیں ہوں, لیکن تم مجھے باتوں ہی باتوں میں ایک دن کھو دوگی اور تب تمہیں میری اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ اس نے نظریں ملائے بغیر کہا۔
مجھے اندازہ ہے, تمہاری اہمیت کا بھی اور تمہاری محبت کا بھی, میرا وعدہ ہے کہ نہ ہی تمہاری اہمیت کم ہوگی اور نہ ہی میری محبت,۔۔۔۔
ہم دونوں کے درمیان جتنے بھی ڈیفرنسس ہیں وہ ہمیں کبھی ایک نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے محبت کے خواب دیکھنا اور دکھانا فضول ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی عامر نا اُمید تھا۔
محبت انسان کو مضبوط بناتی ہے۔ تم میرے فیملی بیک گراؤنڈ کے بارے میں جانتے ہو تم جانتے ہو، کہ وہ کس قدر ڈوبے ہوئے ہیں دولت، تکبر اور روایات کی دلدل میں۔ اس کے باوجود مجھے تم سے محبت کرنے میں کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں ہوتا۔ سحر کے ایک ایک لفظ میں سنجیدگی اور پختگی تھی۔
کہانیوں اور حقیقت کی محبت میں بہت فرق ہوتا ہے سحر , جس طرح تم کہانی میں ٹوئسٹ ڈال کر لڑکا اور لڑکی کو ملا دیتی ہو۔۔۔ اصل زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ۔کہانیاں لکھنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق قسمت کو موڑا جاسکتا ہے۔۔۔ لیکن زندگی ان تصورات کا نام نہیں ہے۔ عامر کی باتیں سحر کو خوفزدہ کررہی تھیں۔
مجھے کوئی خوف نہیں ہے تمہارا ساتھ دینے میں ،لیکن اس معاشرے میں محبت ایک گالی کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔اور تم اس گالی کیلئے اپنی زندگی اور خوشیوں کو نظر مت لگاؤ۔ عامر نے اُسے خاموش پا کر اپنی بات جاری رکھی۔
تمہیں خوف نہیں اور مجھے بھی کسی کا ڈر نہیں ،تو پھر اتنے مایوس کیوں ہوجاتے ہو! سحر نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا
شائد اس لیے کے میرے لیے قربانی دینا بہت آسان ہے۔ میرے پاس اپنے علاوہ کھونے کیلئے اور کچھ نہیں۔۔۔ اور تمہارے پاس تمہارے اپنے ہیں۔ تمہاری خوشیاں ہیں ان سب کو چھوڑنا تمہارے لیے بہت مشکل ہوگا۔
کچھ مشکل نہیں۔ میرے اندر ہمت ہے، اور میری ہمت ،میری محبت سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ سحر نے عامر کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور پھر اچانک اس کی نظر گاڑی پر پڑی ۔ڈرائیور نجانے کب سے اُس کا انتظار کررہا تھا۔
وہ ایک دم گھبرا گئی اور عامر سے دور ہٹ گئی۔ بیگ سے چادر نکالی اور اُوڑھتے ہوئے گاڑی کی جانب چل دی۔
عامر اُسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ مایوسی کی ایک لہر اس کے چہرے پر دوڑ رہی تھی۔ اُسے سحر کی وہ تمام ہمت بھری باتیں ایک بار پھر اس کی کسی کہانی کے ڈائیلاگ لگے۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
تھکے تھکے قدموں سے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ بے دلی سے اپنا بیگ ایک کونے میں پھینکا اور واش روم میں چلی گئی ۔پانی کے ٹھنڈے چھینٹے اپنی آنکھوں پر مارے۔۔۔ آئینے میں اپنے چہرے کو غور سے دیکھا, پہلی بار اُسے اپنے چہرہ اس قدر بے جان لگا۔ اس کے کانوں میں صرف ایک بات بار بار گونج رہی تھی۔
’’تم باتوں ہی باتوں میں ایک دن مجھے کھو دو گی‘‘
اس کی آنکھوں میں بار بار عامر کا مایوس چہرہ گھوم رہا تھا۔
کاش عامر تم میری کہانی کے کردار تک ہی محدود ہوتے۔ میں اپنی مرضی سے کوئی بھی ٹوئسٹ ڈال کر تمام کامیابیوں اور خوشیوں کو تمہارے قدموں میں ڈھیر کردیتی, اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
سحر بیٹا , اُس کے کانوں میں امی کی آواز پڑی تو وہ چونک کر حقیقی دنیا میں واپس لوٹ آئی۔ جی امی آرہی ہوں۔
بیٹا! تمہاری بھابھی کی طبعیت بہت خراب ہے میں اور عادل اُسے ہسپتال لے کر جارہے ہیں۔ امی کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر وہ فوراً واش روم سے باہر آگئی۔
کیا ہوا بھابی کو ؟؟؟ کہاں ہیں وہ ؟؟ سحر نے پریشانی کے عالم میں آس پاس نگاہ دوڑائی۔
کچھ نہیں ہوا , بس یوں سمجھ کہ وہ گھڑی آگئی جس کا برسوں سے انتظار تھا اس گھرکو, میں دادی بننے والی ہوں۔ پہلی بار آج سحر نے امی کو اس طرح خوش دیکھا تھا۔
اچھا بیٹا میں چلتی ہوں۔ عادل اور رخشندہ گاڑی میں بیٹھے انتظار کررہے ہیں۔
امی تو چلی گئیں،مگر وہ خوشی کے عالم میں وہیں بت بنی کھڑی تھی۔ اُسے خوشی تھی تو اس بات کی کہ اب عادل بھائی اور رخشندہ بھابھی کے لڑائی جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔ برسوں بعد گھر کا سکون واپس آجائے گا۔ اُس کے چہرے کی ساری تھکن دور ہوچکی تھی۔ وہ سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے کچن میں چلی آئی۔
آپ کو کچھ چاہیے چھوٹی بی بی ؟؟ برتن دھوتے ہوئے حاجرہ نے پوچھا۔
نہیں بس پانی چاہیے تھا۔ اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے جواب دیا۔
اچھا سنو , جب تمہارا کام ختم ہوجائے تو ایک کپ چائے بنا دینا۔ میں اُوپر اپنے کمرے میں ہوں ۔
چھوٹی بی بی جی , میں ابھی بنا دیتی ہوں۔ حاجرہ نے نہایت مودبانہ انداز میں کہا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے ٹی وی آن کیا۔ وہ کافی پرسکون ہوچکی تھی۔
پھر اچانک اُسے کسی کے سیڑھیاں چڑھنے کی آواز آئی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی۔۔۔ شہباز اُس کے کمرے میں داخل ہوچکا تھا۔
آپ, اُ سکے منہ سے بے اختیار نکلا ،جبکہ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے شہباز کا آنا پسند نہیں آیا تھا۔
عادل اور رخشندہ تو میرے آنے سے پہلے ہی چلے گئے، اس لیے میں نے سوچا آپ سے ہی مل لوں, وہ نہایت شان سے اس کے بیڈ پر براجمان ہو گیا۔
کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دیتے ہیں اور اجازت لیتے ہیں۔۔۔ اس طرح منہ ااُٹھا کر کسی کی پرائیویسی کو ڈسٹرب نہیں کرتے۔ سحر کا لہجہ کافی جارحانہ ہوچکا تھا اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔۔۔ جب بھی شہباز اُس سے ملنے یا بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اسی طرح ردِعمل دکھایاکرتی تھی۔
ہاں بھئی کہہ سکتی ہو۔ اب تم یونیورسٹی جاتی ہو۔ باقی سب تو تمہیں اب جاہل ہی لگیں گے۔ ویسے بہت غرور ہے تمہیں اپنی پڑھائی پر۔۔۔ ہونا بھی چاہیے۔ خاندان کی واحد لڑکی ہو جو یونیورسٹی تک پہنچی ہے۔ اس پر تو تمہیں میرا شکر گزار ہونا چاہیے، ورنہ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی ایسی قسمت کہاں کہ۔۔۔۔۔۔
اور میرے خیال میں آپ کو اس وقت ہسپتال ہونا چاہیے۔ وہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔
رخشندہ گھر آجائے گی تو مل بھی لوں گا اور مبارک بھی دے دوں گا۔ ہسپتال جانا ضروری نہیں ہے۔ شہباز ہمیشہ کی طرح بے فکر انداز میں بولا۔
ہاں! یہ فارمیلٹی بھی ہم لڑکیوں کو کہاں نصیب ہوتی ہے اس خاندان میں۔ اس بار سحر نے بولنے کے بجائے سوچنے کو ترجیح دی۔
کیا سوچ رہی ہو ؟؟ وہ اٹھ کر اُس کے قریب آیا
کچھ نہیں۔,اُس نے بھی تلخ انداز میں جواب دیا۔
تو پھر سوچ اپنے اور میرے بارے میں, ویسے بھی اب تو تم پھوپھی اور میں ماموں بن گیا ہیں۔ شہباز کا شریر لہجہ بھی اس شرانگیز لگ رہا تھا۔
اسی دوران دروازہ پر ستک ہوئی۔
بی بی جی چائے۔ حاجرہ نے آواز لگائی۔
آجاؤ, سحر نے کہا تو دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ ساتھ ہی وہ شہباز کو دیکھ کر سہم سی گئی۔
سلام شاہ صاحب, حاجرہ نے ادب سے نگاہیں جھکا کر سلام کہا جبکہ شہباز سلام کا جواب دینے کے بجائے اس کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔
آپ کیلئے چائے لاؤں شاہ صاحب ؟ حاجرہ نے کپ بیٹ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
یہ شاہ صاحب کو دے دو ،کیونکہ وہ جلدی میں ہیں۔۔۔ ویسے بھی میرا موڈ نہیں رہا چائے پینے کا۔ سحر نے دیکھے بغیر تلخ انداز میں حاجرہ سے کہا۔ حاجرہ نے کپ اٹھا کر شہباز کے پاس رکھ دیا اور باہر چلی گئی۔
میں جانتا ہوں کہ میرا آنا ،تم سے بات کرنا تمہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ لیکن مجبور ہوں اپنے دل کے ہاتھوں۔ اس نے سینے پر ہاتھ کر عاشقانہ انداز میں اور قدرے نرم لہجے میں کہا۔
کسی سے محبت کرنے سے پہلے اُسکی عزت کرنا سیکھیں ،ورنہ ایسے ڈائیلاگ تو ہر کوئی بول سکتا ہے۔ وہ ابھی تک اُسی تلخ موڈمیں تھی۔
جاتے ہوئے چائے ضرور پی کر جانا, ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ ایک نظر اس نے شہباز پر ڈالی اور کمرے سے باہر آگئی ۔۔۔جبکہ شہباز ابھی بھی اپنی مغرور نظروں سے دیوار پر لگی اسکی تصوویر کو گھور رہا تھا ۔پھر ا سکی نظر ٹی وی کے ساتھ پڑی نوٹ بک پر پڑی۔
’’اِک عمر اثر ہونے تک ‘‘نوٹ بک کے پہلے صفحے پر اس نے خوبصورت انداز میں لکھا ہوا پڑھا۔ کہانی کا نام تو بہت اچھا ہے۔ شہباز نے دل ہی دل میں سوچا,
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
کافی عجیب لگ رہا ہے مجھے ۔۔۔ایسا پہلی بار ہوا کہ میں نوٹس تیار نہیں کر پائی۔ سحر کا چہرہ بجھا بچھا سا تھا۔
چھوڑ یار, ہو جاتا ہے کبھی کبھی۔ تمہارے بھائی اور بھابھی کی خوشی سے تمہارا چہرا اور بھی کھل جانا چاہیے تھا ،اور تم ہو کہ بڈھی روح لگ رہی ہو۔عمبرین حسب عادت اس کا مذاق اڑانے لگی۔
پتہ نہیں خوش ہونا چاہیے یا نہیں , گھر میں تو خاموشی چھا گئی ہے۔سب کچھ میری توقع کے برعکس ہوا ہے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حریم کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ پہلے تو امی بھی بہت خوش تھیں ۔۔۔مگر اب وہ بھی خاص خوش دکھائی نہیں دیتیں, سحر کا لہجہ مایوس کن تھا۔
مگر ایسا کیوں ہے ؟ تمہارے گھر میں تو برسوں بعد ایسی خوشی آئی ہے۔ تمہارے بھائی اور بھابی کے جھگڑے کی وجہ ختم ہوگئی۔ اب تو سب کو خوش ہونا چاہیے۔ عمبرین نے حیرن ہوتے ہوئے کہا۔۔
پتہ نہیں جھگڑے کی وجہ ختم ہوئی ہے، یا کسی نئے جھگڑے کا آغاز ہوا ہے۔
سب کو بیٹے کا انتظار تھا۔ بیٹی کے ملنے پر سب کو مایوسی ہوئی ہے۔۔۔ حالانکہ بیٹی خدا کی رحمت ہوتی ہے، اور اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ سب خدا کی رحمت سے مایوس ہو رہے ہیں۔ سحر بینچ پر بیٹھ گئی ۔اُسے لگا تھا کہ شاید وقت پہلے سے بدل گیا ہے ،لیکن حریم کے آنے پر اسے اندازہ ہوا کہ سب کچھ ویسا ہی ہے۔
برا مت ماننا سحر ! تمہاری فیملی کے خیالات اتنے پرانے ہوں گے ،میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ اب تو زمانہ بدل چکا ہے ۔۔۔تعلیم اور شعور کا دور ہے ۔قسم سے سحر !مجھے ان لوگوں کی سوچ سے بہت مایوسی ہوئی ہے , عمبرین بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
حویلی کے اندر وہی زمانہ ہے ،وہی دور ہے ۔روایات اور خاندانی سوچ کی دیواریں اس قدر مضبوط ہیں کہ نہ ہی وہ تعلیم سے گر سکتی ہیں اور نہ ہی شعور اس میں کوئی دراڑ ڈال سکتا ہے۔
لیکن مجھے اُمید ہے کہ تم ایک دن یہ سب بدل دوگی۔ عمبرین نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
اچھا یہ آج عامر نظر نہیں آیا , عمبرین نے آس پاس موجود لڑکے لڑکیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
شائد آج یونیورسٹی نہیں آیا ۔۔۔مجھے بھی وہ صبح سے دکھائی نہیں دیا۔سحر نے بیگ میں سے اپنا موبائل فون نکالتے ہوئے کہا۔ کوئی مسیج بھی نہیں کیا , اس نے اپنا موبائل چیک کیا۔
تمہیں صبح ہی اس سے پوچھنا چاہیے تھا, اب میرے یاد دلانے پر تمہیں اس کا خیال ہے۔ یہ اچھی بات نہیں۔۔۔ایک وہ ہے کہ ایک پل کو تمہارا نام نہیں بھولتا، اور تم ہو کہ صبح سے اب تک تمہیں اس کا کچھ اتہ پتہ نہیں , عمبرین نے اسے اس کی غلطی کا احساس دلایا۔
اچھا اب زیادہ میری ماں مت بنو گھر۔۔۔ جاکر اُسے کال کرلوں گی۔ اُس نے مو بائل فون واپس بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
محبت کرتے ہو، تو پھر اُس پر بھروسہ رکھو۔ مرد کیلئے بہت آسان ہے محبت کرنا، لیکن وہ لڑکی ہوتے ہوئے بھی محبت کرنے سے نہیں ڈرتی۔۔۔ وہ تمہارا ساتھ ضرور دے گی ۔۔۔بس وہ ٹھیک وقت کا انتظار کررہی ہوگی۔ اب سوچنا بند کرو اور چائے پےؤ ٹھنڈی ہورہی ہے۔ آصف نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
آصف اور عامر اچھے دوست تھے۔ عامر اپنی فیملی کو ایک حادثہ میں کھو چکا تھا ۔تب سے اگر کوئی اس کے ساتھ تھا تو اس کا یہ دوست آصف ہی تھا۔
کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ میں سحر کو لے کر کسی اور ملک چلا جاؤں۔ جہاں انسانیت کی قدر ہو۔ محبت جیسے خوبصورت جذبے کو اہمیت حاصل ہو۔ میں بدگمان نہیں ہوں, لیکن میں اگر پاکستان میں ہی رہا تو میں اپنے ماں باپ بہن بھائی کے بعد اپنی محبت کو بھی کھو دوں گا۔ عامر نے چائے کا ایک گھونٹ بھرنے کے بعد کپ نیچے رکھ دیا۔
حوصلہ رکھو یار , ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ جو کچھ تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہوا وہ ان کی تقدیر تھی۔۔۔ انہیں شائد اسی حادثے میں جانا تھا اس دنیا سے, موت نے جب آنا ہوتا ہے، تب وہ نہ تو ملک دیکھتی ہے نہ رتبہ دیکھتی ہے, حالات اور موت سے کوئی نہیں بھاگ سکتا۔ بہتری اسی میں ہے کہ انسان ہمت اور بہادری سے مقابلہ کرے۔
تمہاری بات اپنی جگہ درست ہے لیکن، جس کے ساتھ حادثہ ہوتا ہے وہی اس کی کیفیت جانتا ہے۔ لوگ تو صرف چہر ہ پڑھ کر اندازہ لگانا جانتے ہیں,یہاں نہ تو دلوں کو پڑھنے کا رواج ہے نہ آنکھوں کو, عامر نے آصف کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔
لیکن یار میں نے تیرا دل بھی پڑھا ہے اور تیری آنکھیں بھی۔۔۔ مگر مجھے سوائے سحر کے اور کچھ نظر نہیں آیا ۔آصف نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
اچھا چل اب نہ شرما, کہیں باہر چلتے ہیں اور اچھا سا ڈنر کرتے ہیں, آصف نے اسے خاموش پاکر اس موضوع کو بدلنے کی کوشش کی۔
ہاں! میں کپڑے بدل لوں پھر چلتے ہیں۔ عامر نے چائے کے دونوں خالی کپ اٹھائے اور اندر چلا گیا۔
پھر کچھ دیر بعد دونوں تکہ شاپ پر موجود تھے۔
کب سے آرڈر دیا ہوا ہے۔۔۔ ابھی تک کھانا نہیں آیا, آصف نے ویٹر سے پوچھا،جبکہ عامرہاتھ میں پکڑے فون کو گھور رہا تھا۔
بار بارفون چیک کرنے سے بھی مسیجزاتنے ہی رہیں گے۔۔۔ بڑھ نہیں جائیں گے , آصف نے اس کا مذاق اڑایا۔
صبح سے اُس کا کوئی مسیج نہیں آیا۔ اس نے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا کہ میں یونیورسٹی کیوں نہیں آیا۔اور اب صبح سے رات ہوگئی۔۔۔ اس نے موبائل واپس جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔
کہیں مصروف ہوگی۔ خود فون کرکے بتا دیتے نا, آصف نے سامنے پڑی اخبار اٹھائی اور ورق گردانی کرنے لگا۔
اچانک عامر کا فون گنگنانے لگا’’تیری آنکھوں کے دریا کا اُترنا بھی ضروری تھا‘‘ محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا‘‘
واہ ,کیا رنگ ٹون لگائی ہے۔ آصف نے اُسے خوبصورت رنگ ٹون پر سراہا۔
فون کی سکرین پر سحر کا نام دیکھ کرعامر کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور وہ کال اٹینڈ کرکے وہاں سے کچھ فاصلے پر چلا گیا۔
ہیلو,,
اسلام وعلیکم,! عامر کے ہیلو کے جواب میں سحر نے سلام کرنا بہتر سمجھا۔
وعلیکم اسلام,! بڑی عمر ہے تمہاری, عامر نے رومانوی انداز میں جواب دیا۔
بڑی عمر‘؟وہ کیسے؟؟
ابھی تمہیں ہی یاد کررہا تھا اور تمہاری کال آگئی۔ کیسا رہا آج کا دن یونیورسٹی میں؟ ساتھ ہی عامر مسکرا دیا جیسے اُسے اس سوال کا جواب پہلے ہی معلوم ہو۔
بہت اچھا گزرا, آج ذرا بھی بوریت نہیں ہوئی۔ عمبرین کے ساتھ ٹائم گزرنے کا پتہ نہیں چلا۔ سحر نے بھی شرارتاً جواب دیا۔ وہ جانتی تھی کہ حساس طبعیت کے مالک عامر پر یہ بات بجلی بن کر گرے گی۔
ہم م م م م ۔۔۔۔۔۔ اور اب عمبرین نہیں ہے تمہارے ساتھ اور تمہیں بوریت ہو رہی ہوگی۔۔۔ اسی لیے تم نے سوچا کہ عامر کو کال کر کے اس کے ساتھ ٹائم پاس کیا جائے ۔عامر نے بظاہر منہ بناتے ہوئے کہا۔
بس ایسا ہی سمجھ لو۔۔۔ اور ہاں ابھی ابھی مجھے یاد آیا کہ تم آج یونیورسٹی نہیں آئے‘ یہی پوچھنے کیلئے کال کی ہے۔ بتاؤ کیوں نہیں آئے آج ؟؟
سحر نے پہلی دولائنیں تو شرارتاً کہیں، مگر آخری سوال میں کافی سنجیدگی تھی۔
شکر ہے ابھی ابھی ہی سہی ۔۔۔تمہیں میری یاد تو آئی۔۔۔ ورنہ مجھے تو اتنا بھی یاد نہیں آیا کہ میں ہی تمہیں کال کرلیتا۔ دراصل میں مصروف تھا۔ اسی لیے تمہیں کال یا مسیج کرنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ عامر نے بھی جوابی وار کیا لیکن اس کے لہجے میں سنجیدگی نے سحر کو سنجیدہ کردیا تھا۔
جھوٹ بول رہے ہو! تمہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ تم نے کتنی بار اپنے موبائل کا اِن باکس چیک کیا ہوگا ۔۔۔میرے مسیج کے انتظار میں, میں نے بھی بہت مِس کیا تمہیں,! لیکن تم نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ کیوں نہیں آئے آج۔
بس صبح بستر سے اٹھنے کا دل نہیں چاہا، اس لیے سوچا کہ آج چھٹی مار لوں۔ اس نے ہلکا سا جواب دیا۔
تو کم از کم مجھے ایک مسیج ہی کرکے بتا دیتے ۔۔۔میں سارا دن پریشان رہی کہ پتہ نہیں تمہاری طبعیت بھی ٹھیک ہے یا نہیں, سحر کے انداز میں ہلکا سا غصہ اور فکر تھی۔
مگر تم تو کہہ رہی تھی کہ تمہیں میرا خیال ہی نہیں آیا, عامر اس موقع کے انتظار میں تھا۔
تم جانتے ہو کہ میں مذاق کررہی تھی۔۔۔ اب مجھے شرمندہ کرنا بند کرو اور یہ بتاؤ کہ صبح آؤ گے یا نہیں؟ سحر نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
دیکھوں گا, اگر دل کیا تو آؤں گا۔ عامر نے جلتی پر تیل ڈالا۔
تو ٹھیک ہے جیسے تمہارا دل کہے، ویسے ہی کرو ۔۔۔مجھے کام ہے، اس لیے پھر کبھی بات ہوگی۔ بائے اینڈ گڈ نائٹ ۔سحر نے جلدی جلدی کہا اور فون کاٹ دیا۔ وہ ایک دم سیریس ہو جاتی تھی۔ عامر کو بھی اندازہ تھا کہ اُس نے کس بات پر کال ختم کی ہے، اس کے باوجود اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ محبت کے نشے سے اس کی آنکھیں مغرور ہونے لگیں۔
اگر بات ختم ہوگئی ہو تو آجاؤ کھانا آگیا ہے, آصف نے اسے آواز دی
عامر نے جلدی سے سحر کو ’’I LOVE You‘‘ لکھ کر مسیج کیا ۔۔۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ مسیج سحر کیلئے کسی نیند کی گولی سے کم نہیں ہو گا، اور وہ سکون کی نیند سو سکے گی۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
بھائی اور بھابی کیوں نہیں آئے کھانا کھانے ؟ کہیں باہر گئے ہیں ؟؟؟ سحر نے پلیٹ میں کچھ چاول نکالے۔۔
خاموش کیوں ہیں ؟ بتائیں نہ کہ وہ کیوں نہیں آئیں۔ امی کو خاموش پا کر اس نے پھر پوچھا۔
کیا تم نے ا نہیں آج تک اکٹھے اس گھر سے باہر جاتے دیکھا ہے ؟ امی نے بے زاری سے الٹا سوال کیا۔
نہیں !لیکن آج تک کھانے سے غیر حاضر بھی نہیں دیکھا انہیں۔ ایک کھانے کی میز ہی تو ہے جہاں تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی ۔۔۔کم سے کم سب اکٹھے تو ہوتے ہیں۔
بتائیں امی کیا بات ہے ؟ اُس نے پلیٹ کو سامنے سے ہٹا دیا۔
کیا تمہیں نہیں معلوم کہ کیا بات ہوسکتی ہے؟؟ جب سے حریم پیدا ہوئی ہے تب سے دونوں کے جھگڑے مزید بڑھ گئے ہیں۔۔۔ اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ تمہارا بھائی سارا دن گھر نہیں آتا اور بھابھی اپنے کمرے سے نہیں نکلتی۔ میں اس صورتحال سے بہت پریشان ہوں، اگر معاملہ یونہی چلتا رہا تو نوبت دونوں کی علیحدگی تک جا پہنچے گی۔
معاملات تو حریم کے آنے سے پہلے بھی اسی طرح تھے۔۔۔ اور ان سب میں بھابھی بے چاری کا کوئی قصور نہیں ہے۔ سارا قصور بھائی کا ہے۔ اتنا پڑھنے لکھنے کا کیا فائدہ اگر ان کی سوچ اتنی گری ہوئی ہے۔ سحر نے مایوس کن لہجے میں کہا۔
پہلے لڑائی جھگڑے اولاد نہ ہونے پر تھے۔۔۔ اور اب اولاد ہونے پر ہیں۔ قصور تمہاری بھابھی کا ہے ،کیوں کہ وہ ایک عورت ہے ۔یہاں تمام الزامات عورت پر لگتے ہیں ۔۔۔تمام انگلیاں عورت پر اُٹھتی ہیں۔ مرد کا کیا ہے؟ وہ نہایت شان سے قدم بڑھاتا ہوا گزر جاتا ہے۔ تمہارے بھائی میں بھی آخر تمہارے باپ کا خون دوڑتا ہے اور جو سب کچھ وہ کر رہا ہے، وہ غیر متوقع نہیں ہے۔ امی کے چہرے پر مایوسی کی ایک لہر چھا گئی تھی۔
امی پلیز , آپ بات بات پر ابو کو درمیان میں نہ گھسیٹا کریں۔ ان کی روح کو تکلیف ہوتی ہوگی۔ مجھے آج بھی ان پر یقین ہے کہ اگر وہ ہوتے، تو یہ سب کچھ نہ ہورہا ہوتا۔ مجھ میں بھی تو انہی کا خون دوڑ رہا ہے۔۔۔ لیکن میری سوچ مختلف ہے بھائی سے, سحر کے انداز میں فخر تھا۔
میں نے کوشش کی تھی کہ تم دونوں کی تربیت سے ،میں روایات اور اس طرح کی ادنیٰ سوچ کو بدل سکوں ۔۔۔لیکن میں بھول گئی تھی کہ بیٹے کو باپ پر ہی جانا ہوتا ہے۔ خون کبھی نہیں بدلتا۔ وہ کھانا کھائے بغیر وہاں سے چلی گئیں۔
ساری عمر گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ اس معاشرے میں عورت صرف ایک غلام ہے۔ اقدار۔۔۔رسم و رواج۔۔۔ اور تکبر کی زنجیروں میں جکڑی غلام,
حاجرہ ,! حاجرہ ,! عادل جیسے ہی گھر میں داخل ہوا، اس نے حاجرہ کو آوازیں دینا شروع کردیں۔
حاجرہ نہیں ہے گھر پر , سحر نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا۔
توکہاں ہے ؟ عادل نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
میں نے اُسے دو دن کی چھٹی دے دی ہے۔ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ سحر نے روکھے لہجے میں دیکھے بغیر جواب دیا۔
نوکروں کو اس طرح سر پر چڑھانے کے ضرورت نہیں ہوتی۔ ورنہ بعد میں بہت تنگ کرتے ہیں ۔یہ کہتے ہوئے عادل اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
وہ نوکرسہی ،لیکن ہے تو انسان ہی۔۔۔ وہ بھی بیمار ہوسکتی ہے۔ اُسے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اگر اُس نے کبھی شکایت نہیں کی، جھک کر خوشی خوشی سارے حکم بجا لاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ کچھ محسوس نہیں کرتی۔سحر نے پوری قوت سے چلاکر کہا۔ کچھ دیر پہلے جو زہر اُس کے اندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا وہ زبان پر اُتر آیا تھا۔
یہ تم کس لہجے میں اپنے بڑے بھائی سے بات کررہی ہو ؟ وہ کمرے میں داخل ہونے کے بجائے واپس سحر کی جانب مُڑا۔ وہ بھی کھانے کی میز چھوڑ کر اُسی کی جانب بڑھی۔
آپ کو میرا لہجہ نہیں، میری بات کڑوی لگ رہی ہے ،کیونکہ میں آپ کو حقیقت بتا رہی ہوں۔
تم دونوں کیا اب مجھے مار کر دم لو گے؟ امی اُن دونوں کی باتیں سن کر اپنے کمرے سے باہر آگئیں۔ پہلے لڑائی جھگڑے کم پڑ گئے تھے۔۔۔ جو تم دنوں نے نئی جنگ چھیڑ دی ہے۔
یہ جو آپ ہر وقت اس کی تربیت اور تمیز کے قصیدے پڑھتی رہتی ہیں نا میرے سامنے, دیکھیں ذرا اس کو۔۔۔ اتنی بھی تمیز نہیں کہ اپنے بڑے کے ساتھ کس طرح بات کرتے ہیں۔ عادل نے سحر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔بدلے میں سحر نے نظریں جھکا کر خاموش رہنے کو ہی ترجیح دی۔
سحر تم چلو اپنے کمرے میں۔ میں بات کرتی ہوں عادل سے۔ امی نے سحر کو حکم دینے والے انداز میں کہا۔
ہاں! یہی ہوتا ہے اس گھر میں, جو صحیح بات کررہا ہو۔۔۔ اسے منظر سے ہٹا کر کمرے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ساری تمیز، تہذیب بس لڑکیوں میں ہونی چاہیے۔ مردوں کا کیاہے۔۔۔ وہ تو کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہیں شائد, وہ اس بار دھیمے انداز میں بول رہی تھی۔
بھابھی کی حالت پر رحم نہیں آتا آپ کو؟ ذہنی مریضہ بنا دیا آپ نے انہیں۔ اولاد تو مرد کے نصیب سے ہوتی ہے۔ کیا ہوا اگر وہ آپ کو بیٹا نہیں دے سکیں۔ مگر اب بے اولاد تو نہیں ہیں آپ , اتنی ناشکری کرو گے تو یاد رکھنا بھائی , خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ ایک پل نہیں لگتا اور تختہ الٹ جاتا ہے۔ وہ یہ کہہ کر مڑی اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی آئی۔ آنسوؤں کی لہر اُسکی آنکھوں سے نکل کر اُسکے چہرے پر پھیل گئی۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والی سحر اندار سے اتنی ہی کمزور تھی۔
نتیجہ دیکھ لیا آپ نے اسے یونیورسٹی بھیج کر؟یہی سب کچھ سیکھا ہے اس نے وہاں سے۔۔۔ بہت جلد بھگتیں گی آپ۔۔۔
عادل نے بات کو وہیں ختم کیا اور اُلٹے قدموں گھر سے باہر چلا گیا ۔جبکہ سحر سوچ رہی تھی کہ اُس نے ایسا بھی کیا غلط کہا ،جو عادل بھائی بار بار اُس کا حوالہ امی کو دے رہے ہیں۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
الارم کب سے بج رہا تھا۔وہ رات بہت دیر سے سوئی تھی۔
اُٹھ جاؤ سحر, دل اُسے جگا رہا تھا مگر اُس نے ارادہ کرلیا تھا کہ آج وہ یونیورسٹی نہیں جائے گی۔ تھکی ہوئی صورت لے کر وہ یونیورسٹی نہیں جانا چاہتی تھی۔ یا شائد وہ سرخ اور بے جان آنکھوں سے عامر کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ ہمیشہ خود کو باہمت، نڈر اور مضبوط ظاہر کرتی آئی تھی۔ اُسے لگا کہ اگر عامر اُس کی حالت پہچان گیا تو وہ اس کی وجہ ضرور پوچھے گا۔۔۔ وہ اُسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اُٹھ جاؤ سحر ,, تمہیں دیر ہورہی ہے,! بھابھی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا, ساتھ ہی انہوں نے کھڑکیوں سے پردوں کو ہٹا دیا۔ طلوع ہوتے سورج کی کرنیں جب سحرکی تھکی آنکھوں سے ٹکرائیں تو اُس نے آنکھیں کھول دیں۔
بھابھی آپ آج صبح صبح کیسے جاگ گئیں؟ وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔
تمہاری وجہ سے جلدی اٹھنا پڑا ہے آج مجھے , بھابھی نے اسکے بیڈ پر بکھرا پڑا اُس کا ڈوپٹہ اُسے پکڑاتے ہوئے کہا۔
میری وجہ سے کیسے ؟؟ سحر نے ڈوپٹہ پکڑ لیا۔ جبکہ وہ حیران بھی ہورہی تھی۔
حاجرہ کو چھٹی کس نے دی؟؟ تم نے ہی دی نا, اس لیے ناشتہ بھی تو کسی کو بنانا تھا۔ چلو شاباش! جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر آجاؤ نیچے۔ اگر تمہیں دیر ہوگئی تو میرا جلدی اٹھنا ضائع چلا جائے گا۔ وہ اُسے تاکید کرکے خود نیچے چلی گئیں۔
بوجھل قدموں سے وہ واش روم تک پہنچی۔ اس کی سوچ ابھی تک اسی بات پر اٹکی تھی کہ وہ یونیورسٹی جائے یا نہ جائے۔
کل بھی عامر سے ملاقات نہیں ہوئی۔ آج میں نہ گئی تو۔۔۔اگلے دو روز پھر ویک اینڈ کی وجہ سے اُس سے نہیں مل سکوں گی۔ نہیں میں اُس سے اتنے روز تک دور نہیں رہ سکتی۔ بجلی کی تیزی سے اُس نے برش کیا ،ہاتھ منہ دھو کر وہ برق رفتاری سے سیڑھیاں اترتی ہوئی کچن کی جانب لپکی۔
مجھے پتہ تھا کہ دیر ہورہی ہے تمہیں, اس لیے ناشتہ بالکل تیار ہے آؤ بیٹھو جلدی سے, رخشندہ بھابھی نے کپ میں گرما گرم چائے انڈیلتے ہوئے کہا اور وہ بھی تیزی سے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ کل جو کچھ ہوا۔ بھابھی نے کتنی آسانی سے بھلا دیا۔ وہ ایسی ہی تھیں۔ ہر روز نئی صبح نئی اُمید کے ساتھ دن کا آغاز کرنا اُن کی عادت بن چکا تھا۔
بھابھی یہ میرا ناول یہاں کچن میں کون لایا؟ اچانک اُسکی نظر فریج کے اوپر پڑے اپنے ناول پر پڑی۔ اُس نے کپ رکھ دیا ۔وہ کافی حیران تھی۔
رات کو میں لے کر آئی تھی تمہارے کمرے سے۔ نیند نہیں آرہی تھی۔ حریم کو سُلا کر میں نے سوچا کہ تمہارا ناول پڑھوں۔تمہیں لکھتے ہوئے دیکھتی ہوں تومجھے بھی تجسس ہوا۔
اور پھر آپ نے میرا ناول پڑھا اور آپ کو نیند آگئی ہے نا؟ سحر نے بریڈ پر مکھن لگاتے ہوئے پوچھا۔
خیر اتنا برا بھی نہیں لکھتی تم کہ بندے کو نیند آجائے۔ بہت اچھا لکھا ہے تم نے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہماری ہی کہانی ہو۔ بھابھی اسکے پاس ہی آکر بیٹھ گئیں۔
حریم کوآئے ابھی کچھ ہی روز ہوئے ہیں اور آپ نے کچن میں کام بھی کرنا شروع کردیا۔ آپ کو تو کم سے کم دس ،بیس دن آرام کرنا چاہیے تھا۔ سحر نے بات بدلنے کی کوشش کی لیکن اُسے ناکامی ہوئی۔
سحر, کیا سچ مچ میں ایک دن اتنی تبدیلی آئے گی کہ سب کچھ بدل جائے گا؟ وہ ابھی بھی سحر کے ناول کے سحر میں گرفتار تھیں۔
ہاں, مجھے اُمید ہے بھابھی! ایک دن ایسا ضرور آئے گا ۔بس آپ کو بھی ثابت قدمی دکھانی ہے ہمیشہ, کبھی مایوس نہیں ہونا , جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا صلہ حریم کو ملے گا۔۔۔ وہ آپ سے بالکل مختلف زندگی گزارے گی, آپ کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی, سحر نے رخشندہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دباتے ہوئے کہا۔
اپنا ناول جب مکمل کرلو تو مجھے پڑھنے کیلئے دینا۔ باقی سارا تو میں نے پڑھ لیا لیکن جو رہتا ہے وہ لکھ لو تو بتانا۔ مجھے اس کا اختتام پڑھنے کا تجسس ہو رہا ہے۔ بھابھی نے فریج سے ناول اُتار کر اس کے پاس میز پر رکھ دیا۔
بسں تقریباً پورا ہوچکا ہے۔ اچھا ہوا آپ نے یاد دلا دیا۔ چائے کا آخری گھونٹ بھر کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
تم نے اس ناول میں اپنا نام کیوں استعمال کیا؟ مطلب لڑکی کا کوئی اور نام بھی تو رکھ سکتی تھی۔ بھابھی نے خالی برتن اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
بس یونہی, کہانی کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے میں نے اس میں سب حقیقی نام استعمال کیے ہیں, سحر کا کردار بھی اسی لیے میں اچھی طرح لکھ پائی کیونکہ میں اس کا حصہ ہوں۔ مگر ساری کہانی حقیقی نہیں ہے۔ کچھ کردار فرضی بھی ڈالنے پڑتے ہیں۔ اس نے ناول میز پر سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
جیسے تم نے عامر کا کردار ڈالا ہے۔ مجھے اُس کا فرضی کردار بھی بہت اچھا لگا۔ تم واقعی بہت اچھا لکھتی ہو۔ بھابھی نے ایک بار پھر اس کی کہانی کی تعریف کی۔
نہیں بھابھی, وہ حقیقی کردار ہے۔ میری زندگی سے جُڑا ایک جیتا جاگتا کردار۔۔۔ اُس نے سوچا۔ ساتھ ہی وہ کچن سے باہر آگئی۔
کہاں مر گئے ہیں سب؟ کب سے آوازیں دے رہا ہوں, رخشندہ کہاں ہے؟
عادل نے سحر کو دیکھتے ہی پوچھا۔
کیا ہوا ہے بھائی؟ بھابھی کچن میں ہیں۔ اُس کے کہتے ہی بھابھی بھی کچن سے باہر آگئیں۔
کچھ چاہیے آپ کو ؟ ناشتہ بنادوں آپ کیلئے؟ رخشندہ نے لڑکھڑاتے الفاظ میں پوچھا۔
وہ جو مصیبت میرے گلے میں ڈال دی ہے تم نے۔۔۔ اُسے سنبھالو جاکر ،کہیں رو رو کر اس کی آواز ہی نہ دب جائے۔ بھائی کا اشارہ حریم کی طرف تھا۔ اتنا کہہ کر وہ واش روم کی جانب چل دیا۔
سحر نے بولنا چاہا مگر وہ اپنے جذبات کو اندر ہی اندر پی گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اب اُس نے جواب دیا تو اس کا سارا اثر بھابھی پر پڑے گا ۔ خود تو وہ یونیورسٹی چلی جائے گی۔ اُس نے بھابھی پر ایک خاموش نظر ڈالی اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جذبات کو اندر چھپالینا کتنا درد ناک عمل ہے۔ خاص طور پر جب جذبات اتنے بھڑک رہے ہوں۔ بھابھی نجانے کتنے سالوں سے کتنی آسانی سے یہ سب سہہ رہی تھیں۔
جذبہ کوئی بھی ہو،مگر جب وہ بھڑکنے لگے تو اُسے دبانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اندر سے اپنے آپ کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ تب انسان بے حس ہو جاتا ہے۔ وہ آسانی سے کسی بھی تکلیف کا سامنا کرلیتا ہے جیسے رخشندہ بھابھی کررہی ہیں۔ کیا وہ سچ میں اتنی ہی بے حس ہوگئیں ہیں۔ اُس نے سوچا اور پھر ایک دم سے اُسے خیال آیا کہ اُسے یونیورسٹی سے دیر ہورہی ہے۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
اسلام و علیکم بابا جان, رخشندہ نے ادب سے سرجھکاتے ہوئے سلام کیا۔
وعلیکم, قادر شاہ نے حسب توقع سلام کا آدھا جواب دیا۔
شہباز, صوفی کو کہو کہ گاڑی سے مٹھائی لے آئے۔ قادر شاہ نے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
جی ابا جان, شہباز گیراج کی طرف بڑھا۔
فصیلت کہاں ہے؟ نظر نہیں آرہی؟ انہوں نے گھر کے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ اپنے کمرے میں ہیں۔ آپ بیٹھیں ابا جان, میں انہیں بلا کر لاتی ہوں! رخشندہ نے انہیں بیٹھنے کا کہا اور خود فضیلت بیگم کے کمرے کی طرف چل دی ۔ کچھ ہی دیر میں سحر کی امی فضیلت بیگم ڈرائنگ روم میں موجود تھیں۔
اسلام وعلیکم بھائی صاحب, آپ کے آنے کی بہت خوشی ہوئی۔ وہ بھی پاس صوفے پر ہی بیٹھ گئیں ،جبکہ رخشندہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ وہ دل ہی دل میں خوش تھی کہ اس کا باپ اور بھائی حریم کی مبارکباد دینے آئے ہیں۔ اور اس بات کی اسے اور بھی خوشی تھی کہ وہ باقاعدہ مٹھائی کے ساتھ آئے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا،کہ خاندان میں لڑکی کے پیدا ہونے پر خوشی منائی گئی ہو۔ مبارکباد دی گئی ہو یا سب سے بڑھ کر مٹھائی خریدی گئی ہو۔۔۔ اس کیلئے یہ بات کافی حوصلہ افزاء تھی اور خاص طور پر ایسے موقع پر جب عادل اس سے اور حریم سے بے زار تھا۔ اس نے جلدی جلدی حریم کے کپڑے بدلے اور اسے لے کر ڈرائنگ روم میں چلی آئی۔
اتنے میں شہباز اور صوفی کمرے میں داخل ہوئے۔
یہاں میز پر رکھ دو, شہباز نے صوفی کو مٹھائی رکھنے کیلئے کہا, اس نے مٹھائی رکھی اور واپس گاڑی کی طرف چلا گیا۔
آپ نے یونہی تکلف کیا بھائی صاحب, اس سب کی کیا ضرورت تھی, آپ خود چل کر آگئے اتنا کیا کم تھا؟
رسمیں تو نبھانی پڑتی ہیں فضیلت, انہوں نے رخشندہ کی بانہوں میں لپٹی حریم پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ رخشندہ کو تبدیلی کی ہوا چھو کر گزر گئی۔ ایک دن ایسا بھی آئے گا اُس کی زندگی میں، اُس نے تصور نہیں کیا تھا۔
سحر بھی اگر گھر پر ہوتی تو بہت خوش ہوتی۔۔۔ اس موقع کی تلاش شائد ہی کسی اور کو اُتنی ہو جتنی اسے تھی, رخشندہ نے حریم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ خوشی اس کے چہرے پر عیاں تھی۔جبکہ اس کی اس بات پر شہباز اور قادر شاہ دونوں ہی حیران ہوئے تھے۔
رخشندہ بیٹا ادھر لاؤ حریم کو میرے پاس, جا کر چائے کا پانی کا انتظام کرو, حاجرہ کا نہ ہونا اس وقت رخشندہ کو بھی برا لگ رہا تھا۔
نہیں! اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں دراصل شکارپور جانا ہے زمینوں پر ۔صوفی باہر گاڑی میں انتظار کررہا ہے۔ اس بار شہباز نے جواب دیا۔
میرا خیال ہے ہمیں کام کی بات کرنی چاہیے۔ قادر شاہ نے ٹانگ پر ٹانگ جماتے ہوئے کہا۔ 62 سال کی عمر میں بھی رعب اور دبدبہ کم نہیں ہوا تھا اُن کی شخصت سے۔
جی جی کہیے بھائی صاحب, فضیلت بیگم نے ادباً کہا۔
ہم یہاں اس لیے آئے ہیں تاکہ شہباز اور سحر کی تاریخ پکی کرسکیں۔ میرا مطلب ہے دونوں کی شادی کی تاریخ, فیصلہ کن لہجے میں انہوں نے اپنا کام بتایا
رخشندہ کے چہرے پر خوشی جتنی تیزی سے آئی تھی، اتنی تیزی سے غائب ہوگئی ۔وہ غلط سوچ رہی تھی۔ نہ تو کوئی مبارکباد اسے ملی تھی نہ ہی مٹھائی حریم کیلئے تھے۔ وہ بدستور حریم کے سرپر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں بھیگنے لگیں تھیں۔ اُسے پھر سے یاد آیا کہ وہ ایک لڑکی ہے اور اُس سے بڑھ کر وہ ایک لڑکی کی ماں ہے۔ اتنے میں حریم نے بھی رونا شروع کردیا جس کی آواز سن کر قادر شاہ کے چہرے پر ناگواری واضع تھی۔ رخشندہ حریم کو لے کر وہاں سے چلی گئی۔۔۔ کیونکہ وہ موقع کی نزاکت جان چکی تھی۔
بھائی صاحب , آپ جانتے ہیں کہ اس کے امتحانات ابھی نہیں ہوئے, یونیورسٹی کا ڈیڑھ سال باقی ہے۔ وہ پڑھائی مکمل کیے بغیر شادی کیلئے راضی نہیں ہوگی۔ فضیلت نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
لڑکیوں کا راضی ہونا یا نہ ہونا کب سے اہمیت کا حامل ہوا ہے اس خاندان میں ؟؟ فیصلہ وہی ہے جو بڑے کرتے ہیں۔۔۔ اور بس میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے قادر شاہ نے اس بار قدرے غصے میں کہا۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں بھائی صاحب , لیکن وہ اس طرح کی لڑکی ہرگز نہیں ہے، جو سر جھکا کر ہر بات مان لے ۔۔۔جب تک وہ اس شادی کیلئے راضی نہیں ہوجاتی میں آپ کو شادی کی تاریخ نہیں دے سکتی۔ آپ بات سمجھنے کی کوشش کریں بھائی صاحب,
مجھے سمجھانے سے بہتر ہے اپنی بیٹی کو سمجھاؤ, ویسے بھی مجھے لگ رہا ہے کہ بہت پر پُرزے نکل آئے ہیں اس کے۔ میں نے اسے پڑھائی کی اجازت اس دن کیلئے نہیں دی تھی کہ و ہ بڑوں کی بات کو ہوا میں اُچھال دے۔۔۔ عادل اور رخشندہ کی شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں۔۔۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ شہباز اور سحر کی رسم بھی پوری کردی جائے۔
آپ ناراض نہ ہوں میں اسے سمجھاؤں گی۔ وہ میری بات نہیں ٹالے گی ۔فضیلت بیگم نے گھبراتے ہوئے کہا۔ وہ قادر شاہ کے غصے سے بخوبی واقف تھی۔
وہ ہماری بات مان لے تو اس میں اس کی بھلائی ہے۔۔۔ ورنہ جو ہوگا اس کے ساتھ اسے اچھی طرح بتا دینا۔ انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ شہباز خاموشی سے سب سن رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سحر کا ماننا مشکل ہے۔ وہ اُس سے نفرت کرتی تھی۔
بچپن سے ہی رخشندہ کو عادل کیلئے اور بدلے میں سحر کو شہباز کیلئے منتخب کرلیا گیا تھا۔ ایسا ہی ہوتا آیا تھا ہمیشہ۔۔۔ جو لکھیر کھینچی جاتی تھی، وہ کبھی مٹائی نہیں جاسکتی تھی ۔وہ دونوں تو وہاں سے چلے گئے تھے، لیکن فضیلت بیگم کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی تھیں۔ ایک طرف اکلوتے بیٹے عادل اور رخشندہ کے خراب تعلقات اور دوسری طرف سحر کی زندگی کا بڑا فیصلہ اسی کی مرضی کیخلاف ہورہا تھا۔ وہ خاموشی سے ٹیبل پر پڑے مٹھائی کے ٹوکرے کو دیکھ رہی تھیں ۔کچھ دیر پہلے جومٹھائی اسے تبدیلی کی نوید سنا رہی تھی ۔۔۔ اب وہ مٹھائی اسے ایک طوفان کا پیغام دے رہی تھی۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
آج بہت خوش ہو۔ اس خوشی کی کوئی خاص وجہ ؟؟ عامر نے کلاس سے نکلتے ہوئے سحر کو چھیڑا۔
میں تو ہمیشہ ہی خوش ہوتی ہوں ۔۔۔پریشانیاں میری شان کیخلاف ہیں۔ اُ سے نے بھی فخریہ انداز میں بالوں کو سلجھاتے ہوئے کہا۔ چلو کینٹین چلتے ہیں۔ عمبرین بھی وہیں ہوگی۔
بس یہی تھوڑا وقت ہوتا ہے ہمارے پاس بات چیت کا اور وہ بھی تم عمبرین کے نام کررہی ہو۔ عامر نے خفگی کا اظہار کیا۔
یہی تو وقت ہے، ورنہ تم سے شادی کے بعد نہ عمبرین ملے گی نہ ہی خوشی کے ایسے لمحات, وہ ابھی تک مذاق کے موڈ میں تھی۔
ارے واہ, آج تو بالکل بڈھی روح نہیں لگ رہی۔ تم پر یہ لائٹ پنک کلر بہت سوٹ کرتا ہے۔ ہلکی سے اگر لپ اسٹک بھی ہوتی تو قیامت لگتی۔ عمبرین نے وہاں ٹپکتے ہی مخصوص انداز میں اس کی تعریف کی۔
تم کیوں شرما رہے ہو مجنوع, میں سحر کی تعریف کررہی ہوں نہ کہ تمہیں لپ اسٹک کا مشورہ دے رہی ہوں۔ عمبرین نے عامر کے چہرے پر نظریں ٹکاتے ہوئے کہا جبکہ سحر مسکرا دی۔
یہ جو تمہیں آج اتنی ہنسی آرہی ہے۔ میں پوچھ سکتی ہوں کہ اس کے پیچھے راز کیا ہے؟ اس بار اس نے سحر پر حملہ کیا
بہت گہرا راز ہے۔ اس نے عامر پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔دراصل مجھے شہباز نے پرپوز کیا ہے۔ سحر کی شریر نظریں اب بھی عامر پر تھیں۔ جو کہ کچھ دیر پہلے شرما رہا تھا اور اب سحر کا راز سننے کے بعد اس کے چہرے کے تاثرات بدل چکے تھے۔
پرپوز کرنے والی کیا بات اس میں, تم تو بچپن سے ہی اس کی منگیتر ہو۔ عمبرین سحر کا اشارہ سمجھ گئی تھی، اس نے عامر کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔
اچھا تو اس کا مطلب میں جو آج انگوٹھی لے کر آیا ہوں، واپس لے جانی پڑے گی۔ عامر نے بھی موقع کا فائدہ اٹھایا۔ خوامخواہ میں نے دس ہزار روپے ضائع کردئیے۔ اس نے بے زاری سے کہا۔
نہیں خیر اب ایسی بھی بات نہیں۔ انگوٹھی واپس لے جانا بدشگونی ہوتی ہے۔ مجھے ابھی تک کسی نے پرپوز نہیں کیا۔ اگر تم چاہو تو۔۔۔۔۔۔ عمبرین نے چور نظروں سے سحر کو دیکھا۔
کتنی بے شرم ہو تم , سحر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ گرگٹ کی طرح رنگ ہی بدل جاتا ہے تمہارا , میرے ہی سامنے میرے ہونے والے شوہر کوپرپوز کرنے کا کہہ رہی ہو۔
سحر نے محبت بھری نظر عامر پر ڈالتے ہوئے مصنوعی غصے میں عمبرین کو ڈانٹا۔
واہ، واہ کیا زمانہ آگیا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے اپنے پرپوزل کے قصے سنا رہی تھی اور اب ایک انگوٹھی کے بدلے تم نے اپنے ہی منگیتر کو ٹھینگا دکھا دیا۔۔۔ اور یہ بے شرمی اور گرگٹ کے طعنے مجھے دے رہی ہو ,! ویسے مجھے لگتا ہے کہ تم دونوں کا کھانے پینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے آج, اس لیے تم دونوں یہاں بیٹھ کر صرف قسموں اور وعدوں پر گزارہ کرو ،مجھے تو بھوک لگ رہی ہے میں کینیٹن جارہی ہوں۔ عمبرین نے ایک نظر دونوں پر ڈالی اور وہاں سے چلی گئی۔
چلو ہم بھی آج کچھ نیا کھاتے ہیں۔ قسمیں تو روز ہی کھاتے ہیں۔ اب دل بھر گیا ہے قسموں سے, عامر نے سحر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
تم ناراض ہو نا, میں نے جو مذاق کیا وہ مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ سحر اسکی آنکھوں کو ہمیشہ پڑھ لیا کرتی تھی اور اُسے لہجے میں پشمانی تھی۔
ایسا مذاق نہیں کیا کرتے, مجھے ایسے مذاق سے بھی ڈر لگتا ہے, مذاق میں بھی تم سے جدائی کا تصور میرے رونگٹے کھڑے کردیتا ہے ۔تمہیں مذاق کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔,!
تم بھی بہت عجیب ہو, سحر نے جواباً کہا۔
میرے سر پر سینگھ ہیں یا میرے کان لمبے ہیں, جو تم عجیب کہہ رہی ہو مجھے؟ عامر نے منصوعی خفگی کا اظہار کیا,
سینگھ تو نہیں ہیں لیکن کان تھوڑے سے ضرور لمبے ہیں تمہارے, سحر نے شریر لہجے میں کہا۔
اچھا وہ تمہاری کہانی کہاں تک پہنچی , مکمل کی یا نہیں ابھی ؟؟ عامر نے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
اوہ, ہاں اچھا کیا تم نے یاد دلا دیا۔ اس نے بیگ میں سے اپنا ناول نکالتے ہوئے کہا, تقریباً مکمل ہی ہے, آخری سین باقی ہے۔ اور وہ آخری سین تمہارا ہی ہے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اس کا اختتام تم ہی لکھو۔ اس نے ناول عامر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
کیا مطلب میں لکھوں , مجھے سے نہیں ہوتا یہ کام۔ اس نے ناول پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
اس میں مشکل کیا ہے۔ پہلے سارا ناول پڑھ لو اور پھر اپنے حساب سے اس کو مکمل کردو۔ ویسے بھی کہانی میں عامر کا کردار تم سے ملتا جلتا ہے۔ اس لیے تم مجھ سے بہتر لکھ سکتے ہو اپنے بارے میں ۔۔۔اپنی فیلنگز کے بارے میں، اس لیے پلیز اب انکار مت کرنا۔ ایک ہی تو سین ہے۔ اس نے عامر کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
میں نے آج تک کچھ نہیں لکھا ۔ تم بتا دو کہ کیا کچھ لکھنا ہے، تاکہ میں آج ہی اس کہانی کو مکمل کردوں۔ عامر نے کندھے اچکائے۔
حد کرتے ہو تم, اگر میں نے ہی بتانا ہے تو لکھ بھی خود ہی لوں گی۔ میں نے سوچا اگر تم لکھو گے تو حقیقت سے قریب تر ہوجائے گا۔ ویسے بھی تمہاری اور میری کہانی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ کمال لکھو گے۔ اس نے سرخ نظریں عامر پر ڈالتے ہوئے کہا۔
حقیقت سے قریب تر ہی ہوگا۔ لیکن فی الحال تم اپنا ہاتھ دکھاؤ, عامر کو جیسے کچھ یاد آگیا ہو اور اس نے جیب میں سے ایک ڈبیا نکالی جبکہ اس دوران سحر کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس ڈبیا میں کیا ہے۔
کیا تم مجھ سے شادی کرو گی ,! ؟؟ فلمی انداز میں عامر نے انگوٹھی لہراتے ہوئے کہا۔ سحر نے شرماتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا,!
مجھے نہیں علم کہ اس موقع پر کیا کہتے ہیں لیکن شکریہ۔ سحر نے غور سے انگلی میں چمکتی انگوٹھی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
آئی لو یو, عامر نے حسب معمول اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا جبکہ سحر شرم کے مارے سرخ پڑ رہی تھی۔ پھر ایک دم اس کے چہرے پر پریشانیوں نے ڈیرے ڈال دئیے۔
کیا ہوا ؟تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟ عامر نے اس کے بدلتے تاثرات کو محسوس کرلیا تھا۔
میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کا لمحہ شائد ہی کوئی ہو , لیکن یہاں تک کا سفر تو آسان تھا جو ہم نے طے کرلیا۔۔۔ آگے نجانے کیا کیا موڑ آئیں گے۔ خدانخواستہ اگر ہم کہیں راستے میں بھٹک گئے تو ہماری محبت کا کیا بنے گا۔ بھٹکی ہوئی محبت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔۔۔ نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے دیتی ہے۔ سحر کی نظر ابھی تک اس چمکدار انگوٹھی پر تھی۔
مجھے منزل کی پرواہ نہیں ہے سحر , لیکن سفر جتنا بھی ہوگا ۔۔۔تمہارے ساتھ ہی ہوگا۔ مجھے بھٹکنے سے ڈر نہیں لگتا، لیکن ساتھ چھوٹنے کا خدشہ ہر وقت رہتا ہے۔ بتاؤ سحر کیا ساتھ دو گی میرا؟؟ حالات چاہے جو بھی ہوں ۔۔۔ راستے کتنے ہی دشوار ہوں, منزل ملے نہ ملے۔۔۔ ان سب خدشوں کے باوجود کیا تم میرا ساتھ دوگی؟؟
تمہارا ساتھ نہ بھی دینا چاہوں ،تب بھی میرے اندر جو بغاوت ہے۔۔۔ جو محبت ہے اور وہ ماحول جو میں ہر وقت اپنے گھر میں دیکھتی ہوں ۔۔۔وہ تمہارا ساتھ دینے پر مجبور کرتا ہے مجھے۔ میری خود غرضی سمجھو یا میری محبت سمجھو ۔میں شہباز کے ساتھ بھابھی والی زندگی نہیں گزار سکتی۔ اسی لیے مجھے ہر حال میں تمہارا ساتھ دینا ہے۔ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ بے بسی سحر کے لہجے میں عیاں تھی۔
مجھ پر بھروسہ کرکے دیکھو۔ میں محبت بھرے تمام رشتوں سے محروم رہا ہوں ہمیشہ, میں وہ ساری محبت تمہیں دینا چاہتا ہوں۔ میں وہ ساری محبت پوری کرنا چاہتا ہوں اس ایک رشتے کے ذریعے۔ عامر کا ایک ایک لفظ محبت سے سرشار تھا۔
مجھے بھروسہ ہے محبت پر اور یہی احساس مجھے مضبوط بناتا ہے۔ مجھے ان رسموں اور سوچوں کیخلاف بغاوت پر اُکساتا ہے۔ کبھی کبھی ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں محبت بھی بغاوت نہ کردے۔ اس نے انگوٹھی اتاری اور پھر دوبارہ انگلی میں سجالی۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ تمہیں گھر میں اب ہمارے بارے میں بات کرلینی چاہیے۔ تمہاری امی اور بھابھی کو میرے بارے میں علم ہونا چاہیے۔۔۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور وہ شہباز تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلیز, ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ شہباز آئے گا اور اپنی مرضی سے میرا ہاتھ پکڑ کر لے جائے گا مجھے, میں اس سے شادی سے کئی بار امی کو انکار کرچکی ہوں اور وہ کبھی بھی میری مرضی کے بغیر میری شادی شہباز سے نہیں کریں گی۔ سحر کی آنکھوں میں یقین کی چمک تھی۔
پھر بھی اتنا آسان مت لو اس صورتحال کو, تم ہی نے بتایا تھا کہ تمہارے خاندان میں خاندان سے باہر شادی نہیں کی جاتی ،تاکہ خاندان کی دولت خاندان میں ہی رہے۔ اسی لیے وٹے سٹے کی رسم برسوں سے چلی آرہی ہے۔ اگر شہباز کی بہن کی شادی تمہارے بھائی سے ہوئی ہے تو وہ کس طرح قبول کریں گے کہ بدلے میں تمہاری شادی شہباز سے نہ ہو، بلکہ خاندان سے باہر ایک ایسے لڑکے سے ہو جس کے پاس نہ تو کوئی جائیداد ہو اور نہ ہی کوئی سٹیٹس ہو۔ اتنا آسان نہیں ہے سحر جتنا تم سمجھ رہی ہو۔ عامر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
مجھے ڈراؤ مت, کم سے کم مجھے کچھ وقت دو ۔گھر میں پہلے ہی بھائی اور بھابھی کی لڑائیاں ختم نہیں ہوتیں اور اوپر سے میں ایک نئی پریشانی نہیں دے سکتی امی کو۔ سحر نے بے زاری سے کہا۔
ڈرا نہیں رہا۔ حقیقت یاد دلا رہا ہوں تمہیں, اگر تمہیں برا نہ لگے تو ایک بات کہوں؟ عامر نے اجازت چاہی۔
کیا بات , سحر ایک دم متوجہ ہوئی۔
تمہارے بھائی اور بھابھی کے خراب تعلقات تمہارے حق میں بہتر ہیں۔ عامر نے جھجکتے ہوئے کہا۔
کیا مطلب ہے تمہار, اُن کے لڑائی جھگڑوں سے مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟؟ سحر حیران تھی۔
ہو بھی سکتا ہے۔ تمہاری بھابھی اگر تمام شکائیتں شہباز اور اپنے باپ تک پہنچائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے دکھ کے پیش نظر تم لوگوں سے تعلق توڑ لیں۔
وہ کیسے؟ اتنی آسانی سے کیسے ؟ سحر ابھی تک باس سمجھ نہیں پائی تھی۔
تم اپنی بھابھی کا ساتھ دینے ، اور روز ان کے حالات اور تعلقات بہتر بنانے کے بجائے اپنے بھائی کا ساتھ دو۔ عامر نے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا, اسے خوف بھی تھا کہ کہیں اس کا مشورہ سحر کی ناراضگی کا سبب نہ بن جائے۔
تم یہ کہہ رہے ہو کہ بھابھی کے ساتھ جو ہورہا ہے اور میں وہ ہونے دوں؟ بھائی کو داد دوں ان کی سوچ اور مردانگی کی؟ سحر کا لہجہ ایک دم بدل گیا۔ اگر میں ایسا کروں بھی تو اس سے ہمارے لیے کیا آسانی ہوگی؟اُس کے لہجے سے بے یقینی تھی۔
فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں میں علیحدگی ہوجائے گی اور بدلے میں تمہارے رشتے سے بھی انکار ہوجائے گا۔۔۔ اور پھر تم آسانی سے اپنے اور میرے بارے میں گھر میں بات کرسکتی ہو۔۔۔یوں وٹہ سٹہ کی رسم کا فائدہ اٹھا سکتی ہو تم ہم دونوں کے لیے ۔عامر بول رہا تھا جبکہ سحر بے یقینی سے اُسے دیکھتی رہی۔
مرد ہی ہونا آخر تم , وہی روایتی مرد ۔۔۔جو اپنی خوشی کیلئے کسی بھی عورت کی زندگی یا کسی کا بھی گھر برباد کرسکتا ہے۔ میرا اندازہ تھا کہ صرف ہائی سوسائٹی کے مرد ہی خود غرض ہوتے ہیں۔۔۔ صرف محلات میں رہنے والے۔ وہ غصے میں پھٹ پڑی, اس کی آنکھوں نے بند کھول دئیے اور پھر اس کے خوبصورت گال تر ہوتے چلے گئے۔
تم غلط سمجھ رہی ہو سحر, عامر کو اندازہ ہوا کہ اس نے کیا کہہ دیا,
پہلے غلط سمجھ رہی تھی۔ سمجھی تو اب ہوں, سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اپنی خواہشات کے غلام۔۔۔ کوئی فرق نہیں ہوتا ان میں چاہے وہ محلات میں رہتے ہوں یا بلدیہ ٹاؤن, اس نے انگھوٹھی پھر اتاری, آنسو اپنی حدوں کو چھو رہے تھے۔
پلیز سحر معاف کر دو ۔۔۔مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ لوگ دیکھ رہے ہیں پتہ نہیں وہ کیا سمجھیں گے۔ پلیز رونا بند کرو۔ پلیز میری خاطر, عامر کے چہرے پر ندامت تھی۔ اس کے لہجے میں پچھتاوا تھا۔
میں ایک لڑکی ہوں ،عورت ہوں۔۔۔اپنی بھابھی کا دکھ اپنا دکھ سمجھتی ہوں۔ میں ان کی اُمید اور خوشی کا چراغ بجھا کر خود روشنی کی تمنا کیسے کرسکتی ہوں؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ یہ سب کرکے ہم خود خوشی خوشی زندگی گزار سکیں گے؟ یاد رکھنا عامر, وقت گردش میں رہتا ہے۔ کبھی بھی گھوم کر کسی کے بھی پاس جا سکتا ہے۔ اُس نے انگوٹھی اتار کر عامر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ مجھے بہت مایوسی ہوئی, وہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دی۔
پریشان مت ہو! وہ خود ہی تھوڑی دیر بعد نارمل ہوجائے گی۔ ویسے غلطی تمہاری ہے عامر! تم اُسے اچھی طرح جاتے ہو۔۔۔ اس کی سوچ سے واقف ہو۔ تمہیں ایسی بات اس سے کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ عمبرین جو کہ کینٹین سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی، عامر کے پاس آئی اور ان کے درمیان ہونے والی تکرار کی وجہ جاننے کے بعد اسے سمجھا رہی تھی۔
بے شک میری غلطی ہے، لیکن ہر غلطی کرنے والے کو معافی کا ایک موقع تو ملتا ہے نا۔ اس نے اتنا بھی موقع نہیں دیا مجھے! عامر نے مین گیٹ کے پاس اپنے گاڑی کا انتظار کرتی سحر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
پریشان نہ ہو! وہ جب اپ سیٹ ہوتی ہے تو کسی سے بھی بات نہیں کرتی ۔میں اس کی عادت سے اچھی طرح واقف ہوں۔ خیر تم پریشان مت ہونا۔ وہ صبح خود ہی تم سے بات کرے گی۔ عمبرین نے بیگ میں سے اپنے گلاسز نکالتے ہوئے کہا۔
صبح تو ہفتہ ہے اور پھر اگلے دن اتوار , مطلب دو دن بعد ہی اب اُس سے بات ہوسکے گی۔۔۔ وہ بھی اگر اس کا موڈ ٹھیک ہوا تو۔ عامر نے مایوسی کے عالم میں کہا۔ نگاہیں اس کی ابھی بھی خاموش سحر پر تھیں۔
مجھے یاد ہی نہیں تھا ویک اینڈ کا۔ چلو مجنوع اچھا ہی ہوا تمہارے ساتھ۔۔۔ ان دو دنوں میں پتہ چلے گا کہ محبت آسان نہیں ہوتی، خاص طور پر جب وہ ناراض ہوجائے۔ اچھا میں بھی اب گھر چلتی ہوں۔ تم یہاں کھڑے کھڑے اُسے منانے کے فلمی طریقے سوچو! حسب عادت عمبرین نے اسکا مذاق اڑاتے ہوئے کہا اور گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ عامر اُسے دیکھتا رہا۔ وہ سحر کے پاس پہنچ کر اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے باہر چلی گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس سے زیادہ سحر برداشت نہیں کرے گی اس صورتحال میں۔
وہ بھاگتا ہوا گیٹ کی جانب بڑھا کیوں کہ اس نے دیکھا کہ سحر اپنے بیگ سے چادر نکال رہی تھی۔ شائد ڈرائیور گاڑی لے کر آگیا تھا۔
سحر, اُس نے پاس پہنچ کر آواز دی۔ عامر کے دل ڈوبا جا رہا تھا۔ دھڑکنیں پوری رفتار کے ساتھ دھڑک رہی تھیں۔ وہ سحر کو اس طرح ناراضگی میں جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔
سحر نے مڑ کر اس پر ایک نگاہ ڈالی۔ اس کی آنکھیں بھیگنے کے بعد خزاں کی مانند ویران ہوچکی تھیں۔ یہ وہ آنکھیں نہیں ہیں جو ہمیشہ سے وہ دیکھتا آیا تھا۔ م
مجھے معاف کردو, عامر نے کانپتے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ کچھ دیر پہلے اس کا ہنستا مسکراتا ، شفاف چہرہ اب غم کی اور ندامت کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اس کی حساسیت اس کے پورے وجود پر بکھری ہوئی تھی۔
میں نے معاف کیا۔ سحر نے ہلکا سا جواب دیا اس کے جواب میں بے شمار شکوے تھے۔ مایوسی تھی، بے یقینی تھی اور پھر وہ گیٹ سے نکلتی ہوئی سامنے موجود چمکتی ہوئی گاڑی کا دروازہ کھول کر سیٹ پر براجمان ہوگئی۔ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ عامر وہیں بت بنا اسے دیکھتا جا رہا تھا ،پھر جیسے اُسے ہوش آیا ہو۔ وہ تیزی سے گیٹ سے باہر آگیا اس کی نظریں التجا کررہی تھیں ،وہ معافی کی طلب گار تھیں۔۔۔سزا پانے کی خواہش مند تھیں۔ سحر نے اس کی طرف نہیں دیکھا جیسے جانتی ہی نہ ہو۔
چلیں بی بی جی ؟؟ صوفی نے اجازت چاہی ۔ وہ صورتحال کو کافی حد تک سمجھ چکا تھا۔
ہاں! چلو! اس نے گاڑی کے بلیک شیشے چڑھاتے ہوئے کہا۔ اور پھر گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔
عامر نے ہاتھ میں موجود انگوٹھی پر ایک گہری نظر ڈالی! فلمی ہیرؤں کی طرح اُسے سڑک پر پھینکنے کے بجائے اپنی جیب میں رکھ لی اور بس سٹاپ کی طرف بڑھ گیا۔ بس کے آنے میں ابھی وقت تھا ۔پھر اسے جیسے کچھ یاد آیا اس نے موبائل فون نکالا اور سحر کو ٹیکسٹ لکھنے لگا۔
’’مجھے پتہ ہے کہ تم بات نہیں کرو گی ،لیکن پلیز مجھے گھر تک ڈراپ کردو۔ آج بس نہیں آئے گی کیونکہ ہڑتال ہے ‘‘
وہ جانتا تھا کہ اب جواب ضرور آئے گا سحر کی طرف سے۔
گاڑی واپس موڑو سحر نے SMS پڑھنے کے بعد صوفی کو گاڑی یونیورسٹی کے پاس موجود بس سٹاپ کی طرف موڑنے کو کہا۔
جی بہتر بی بی جی, اس نے ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ لیکن اسے معلوم تھا کہ گاڑی واپس کس لیے مڑرہی ہے۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
شکریہ ,عامر نے شرمندہ مگر تروتازہ لہجے میں اس کا شکریہ ادا کیا۔
کس بات کیلئے؟
مجھے معاف کرنے کیلئے اور کس لیے؟ وہ خوشی کو چھپا نہیں پا رہا تھا
اچھا اب چھوڑ بھی دو اس بات کو, میں نے ضرورت سے زیادہ ردعمل دکھایا اس بات پر, اب اگر مجھے بار بار شکریہ کہو گے تو میں احساس جرم میں مبتلا ہو جاؤں گی۔
اچھا نہیں کہوں گا۔۔۔ لیکن یہ تو بتاؤ کہ آج اتنی ہمت کہاں سے آگئی کہ تم ڈرائیور کے سامنے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی گاڑی میں بٹھا کر یہاں لے آئی ساحل سمندر پر۔ عامر نے بات بدلی۔
جہاں معاملہ محبت کا ہو۔۔۔ وہاں خوف ڈر اور ہمت کا کوئی بھی قانون دلیل نہیں رکھتا۔ صوفی شہباز کا ڈرائیور ہے ۔یونیورسٹی تک پڑھنے کی اجازت اسی شرط پر ملی تھی کہ مجھے صرف صوفی پک اینڈ ڈراپ کرے گا ۔شہباز مجھے اپنی جاگیر سمجھتا ہے اور اسے شائد یہ خوف تھا کہ کہیں اسکی جاگیر پر کوئی قبضہ نہ کرلے۔ اوریہ ڈر انسان کو تب ہوتا ہے جب وہ خود کسی اور کی جاگیر پر قابض ہو۔ سحر نے قدرے کڑوے انداز میں کہا۔
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ سچ مچھ تم سے محبت کرتا ہو! بس ذرا اس کا انداز الگ ہو! عامر نے نہ چاہتے ہوئے بھی کہہ ڈالا
محبت! سحر نے تلخ لہجے میں زیرلب دہرایا۔ میں محبت نہیں ضد ہوں اس کی، ایک رسم ہوں۔۔۔ اور ہمارے ہاں ضد اور رسم صرف مرد کے حق میں ہوتی ہے۔ نشانہ صرف لڑکی بنتی ہے۔ اگر اُسے واقعی مجھ سے محبت ہوتی تو مجھے آج صوفی پک اینڈ ڈراپ نہ کررہا ہوتا ۔۔۔وہ ڈرائیور نہیں جاسوس ہے اس کا۔
اور تم اُس جاسوس کے سامنے میرا ہاتھ پکڑ کر یہاں لے آئی! اور وہ ایک ایک بات جا کر شہباز کو بتائے گا, عامر نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
یہی چاہتی ہوں میں کہ وہ میرے اور تمہارے بارے میں شہباز کو بتا دے۔ کم از کم اُسے پتہ تو چل جائے میرے اور تمہارے بارے میں, اُسے خود بھی تو ایک نہ ایک دن بتانا ہی پڑتا۔ سحر نے دور پارکنگ میں موجود صوفی پر نظر جماتے ہوئے کہا۔
اتنا تیز مت بھاگو سحر! ٹھوکر لگے گی تو سنبھل نہیں پاؤ گی۔ یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے اور خاص طور پر تمہارے لیے۔ مجھے تو کوئی جانتا بھی نہیں ہے، جو ظلم ہو گا وہ صرف تمہارے ساتھ ہوگا ۔میرا مطلب ہے کہ بس تھوڑا انتظار کرو ۔گھر والوں اور شہباز کو ٹھنڈا رکھو ۔پھر مناسب وقت آنے پر ہم دونوں آسانی سے ایک ہوسکتے ہیں۔ عامر نے پرجوش ہوتے ہوئے کہا۔
کیسا مناسب وقت ؟ سحر نے متوجہ ہوتے ہئے کہا! اس کی نظر اب صوفی سے ہٹ کر عامر پر تھی۔
میرا ایک دوست اٹلی میں مقیم ہے اپنی فیملی کے ساتھ۔۔۔ اُس نے کئی بار مجھے کہا کہ وہ مجھے اٹلی کا ویزہ بھیج سکتا ہے ،لیکن میں اپنی سٹڈی پوری کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ اس لیے منع کردیا ۔اس آخری سمسٹر کے بعد میرا وہاں جانے کا ارادہ ہے۔ اور تب تک میرے پاس کچھ پیسے بھی جمع ہوجائیں گے۔ وہ ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔
لیکن سٹڈی کے بعد تو تمہیں یہاں بھی اچھی جاب مل سکتی ہے۔ اتنی دور جانے کا کیا فائدہ ہے۔ سحر نے حیرتاً کہا
بات صرف جاب کی نہیں ہے سحر! میں بس پاکستان میں نہیں رہنا چاہتا۔ یہاں سوائے پریشانیوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ سب کچھ تو چھین لیا گیا مجھ سے یہاں۔۔۔ اب ایک محبت بچی ہے اور میں اُسے کھونا نہیں چاہتا ۔عامر کا پرجوش لہجہ ایک دم سنجیدگی میں بدل گیا۔
سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کہوں اب؟ سحر نے شور مچاتی لہروں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔سمندر میں بھی جیسے بھونچال سا آگیا تھا۔
بات سمجھنے کی کوشش کرو سحر! کچھ ہی مہینوں کی بات ہے۔ میرا ویزہ بھی آجائے گا اور پھر میں نکاح کے بعد تمہیں اس چنگل سے نکال کر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ وہاں ہمیں کسی شہباز کا خوف نہیں ہوگا۔ ہم دونوں کی خوشیاں کوئی نہیں چھین سکتا۔
مگر اتنا عرصہ میں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلیز میری خاطر! ہم دونوں کی خاطر بس تھوڑا سا انتظار کرو اور مجھ پر بھروسہ رکھو! میں جاتے ہوئے تمہیں اپنا بنا کر جاؤں گا۔ تم سے نکاح کرکے جاؤں گا اور پھر کچھ عرصہ بعد آکر تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا۔ بس تب تک تمہیں حالات کو قابو میں کرنا ہے۔ عامر نے اس سے آنکھیں ملاتے ہوئے اُسے یقین دلایا۔
پیسوں کا انتظام کیسے کرو گے؟ سحر نے فکر انگیز لہجے میں کہا۔
ہو جائے گا تم فکر مت کرو۔ تم جانتی ہو کہ میں نے اپنا گھر کرائے پر دیا ہوا ہے اور خود آصف کے ساتھ رہتا ہوں۔ میں اُسی گھر کے سہارے اپنی سٹڈی جاری رکھے ہوئے ہوں۔ اگر ضرورت پڑی تو میں وہ گھر بیچ دوں گا۔
پاگل ہوگئے ہو؟ ایک وہی تو نشانی ہے تمہارے پاس تمہارے اپنوں کی ۔۔۔تم ایسا ہرگز نہیں کرو گے ،میں انتظار کر لوں گی۔
زندگی گزارنے کیلئے اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ ان کی موجودگی کی اہمیت ہوتی ہے۔ ورنہ محض نشانیوں پر کہاں زندگی گزرتی ہے۔ صرف یادوں یا نشانیوں کے سہارے زندگی کہانیوں میں گزرتی ہے۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ عامر نے ہاتھ میں پکڑا ہوا اس کا ناول دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا اب بہت وقت ہوگیا, ہمیں چلنا چاہیے ورنہ تمہارے شہباز صاحب تمہیں خود پک اینڈ ڈراپ کرنے لگ جائیں گے۔ سحر کو خاموش پا کر اس نے شرارتاً کہا تو جواب میں سحر بھی مسکرا دی۔
صوفی کو کہتی ہوں تمہیں گھر چھوڑ دے گا۔ اور ہاں! سوموار تک ناول کا آخری حصہ مکمل ہوجانا چاہیے۔ سحر نے اسے تاکید کی۔
تم ساتھ نہیں چلو گی؟ عامر نے جھجکتے ہوئے کہا۔
نہیں تم نے ہی تو کہا ہے کہ حالات کو قابو میں رکھوں ۔اس لیے اب پھونک پھونک کر قدم رکھنے پڑیں گے۔
اوہ اچھا! میں سمجھ گیا! چلو اچھا ہے تم تب تک سمندر کی لہروں کو دیکھو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہیں اگلی کہانی کیلئے کوئی سین یہاں سے مل جائے۔ عامر نے مذاقاً کہا اور جیب سے انگوٹھی نکالی۔
اس بار مت اتارنا پلیز۔۔۔ ورنہ بدشگونی ہوجائے گی۔ عامر نے اس کے ہاتھ میں انگوٹھی تھماتے ہوئے کہا۔
سٹار پلس کے ڈائیلاگ چھوڑو اور انگوٹھی خود پہناؤ مجھے۔ سحر نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
پہناؤں گا تو صوفی دیکھ لے گا اور اب کچھ عرصے کیلئے احتیاط ہی ضروری ہے۔ عامر نے سرگوشی کی!
ایسے کیوں دیکھ رہی ہو! اتنی مسکین نظروں سے, عامر نے اُسے اپنی طرف دیکھتا ہوا پایا۔
یونہی! تم سے جدا ہونے کا وقت جو آگیا ہے! سحر نے اپنی آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔
صرف ویک اینڈ کی ہی تو بات ہے! سوموار سے ہم ایک بار پھر ساتھ ہوں گے! عامر نے اُسے تسلی دی۔
میں جانتی ہوں ! اچھا اب جاؤ تم! میں یہیں رکوں گی تھوڑی دیر۔ صوفی کو کہہ دو کہ تمہیں ڈراپ کردے۔ کہہ دینا کہ چھوٹی بی بی نے کہا ہے۔ سحر نے اُسے دیکھے بغیر کہا۔
او۔۔ ہو۔۔ چھوٹی بی بی! کیا نام ہے! عامر نے مخصوص انداز میں دہرایا۔ اگر بی بی سے پہلے چھوٹی نہ لگاؤ تو یہی نام کسی دادی اماں کا احساس دلانے لگتا ہے۔ عامر نے اُس کا موڈ بدلنے کیلئے اُسے چھیڑا۔
اچھا اب باتیں نہ بناؤ اور جاؤ! مجھے بھی دیر ہورہی ہے۔ سحر نے بھی مسکراتے ہوئے کہا اور پھر عامر وہاں سے چل دیا۔ اُس نے ایک بار پھر مڑ کر سحر کی جانب دیکھا لہروں کے شور میں سے جیسے اُسے سحر کی آواز سنائی دی! عامر مت جاؤ! پلیز عامر مت جاؤ!
لہریں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ کنارے کی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہیں اور جب کنارہ ملتا ہے تو ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہیں۔۔۔جیسے ایک لمحے کا ٹکرانا ان کی پوری جدوجہد کا حاصل ہو۔ سحر نے سوچا! بالکل محبت کی طرح! میں بھی تو رسموں میں قید ایک لہر ہوں، کنارے کی متلاشی! کیا میرا صرف کنارے سے ٹکرانا ہی کافی ہوگا؟؟ نہیں مجھے تو اس کنارے سے بھی کہیں آگے جانا ہے۔
لہروں کا کنارے سے آگے جانے کا مطلب صرف تباہی ہوتا ہے سحر! اس نے تشویش بھرے انداز میں خود سے کہا
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
واہ۔۔۔ اتنی ساری مٹھائی! سحر نے اپنا بیگ صوفہ پر پھینکا اور ٹیبل پر پڑے مٹھائی کے بند ٹوکرے کی طرف لپکی۔
کہاں سے آئی اتنی مٹھائی, ؟ اس نے اپنا من پسند گلاب جامن منہ میں رکھا! بہت مزے کی ہے! لیکن آپ دونوں بول کیوں نہیں رہیں؟ اُس نے امی اور بھابھی کو خاموش پا کر دوبارہ پوچھا۔
شہباز بھائی اور ابا لے کر آئے تھے! رخشندہ نے دبی دبی آواز میں بتایا۔
سچ؟ اُس کے منہ سے بے اختیار نکلا! مجھے اُمید تھی کہ وہ حریم کو دیکھنے ضرور آئیں گے۔ دیکھا بھابھی آپ نے! وقت بدل رہا اور پھر حریم ہے ہی اتنی پیاری کہ اُسے کوئی نظر انداز کر ہی نہیں سکتا۔ سحر کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ اُسے کتنی خوشی ہوئی! وہ اس عالم میں رخشندہ کے پاس آئی اور ان کی گود سے حریم کو اٹھا لیا۔
میں بھی یہی سمجھ رہی تھی! یہی سوچ رہی تھی جو تم سوچ رہی ہو! کاش کہ ایسا ہی ہوتا! رخشندہ نے بے بسی کے عالم میں کہا۔
کیا بات ہے بھابھی؟ آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں! تھوڑی سی ہی سہی! ہوا تو چلی ہے نا! آپ دیکھنا ایک دن بھائی کی سوچ بھی اسی ہوا میں اڑ جائے گی، اور وہ بھی حریم سے پیار کرنے لگیں گے۔ سحر نے دوسرے ہاتھ سے برفی کا ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ خواب دکھانا بند کرو سحر! رخشندہ بھابھی اٹھ کر اس کے پاس آگئیں۔
بلندی سے گر کر چور چور ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اتنا ہی اڑے جتنے اس کے پر اُسے اڑا سکیں۔ انہوں نے سحر کی بانہوں سے حریم کو چھڑایا اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔۔۔ ہکی بکی سحر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بھابھی نے ایسا کیوں کہا۔
کیا بات ہے امی؟ بھابھی نے ایسا کیوں کہا؟ کیا وہ خوش نہیں کہ قادر چاچا اور شہباز اسے مبارکباد دینے آئے ہیں خود چل کر! سحر پاس آکر امی کے ساتھ بیٹھ گئی! وہ ابھی تک حیران تھی۔
بیٹا میں نے اور رخشندہ نے بھی یہی سمجھا تھا جو تم سمجھ رہی ہو! ہمیں بھی یہی غلط فہمی ہوئی تھی جو تمہیں ہورہی ہے! تمہارے چچا اور شہباز اس مٹھائی کے ساتھ حریم کی مبارکباد دینے نہیں آئے تھے، بلکہ تمہارے اور شہباز کے رشتے کی بات کرنے آئے تھے، بلکہ بات کیا،یوں سمجھو رشتہ پکا کرکے گئے ہیں۔ اور جلد شادی کی تاریخ بھی مانگ کر گئے ہیں۔ امی نے ڈرتے ڈرتے سحر کو اصل بات بتائی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ سحر کا ری ایکشن کیا ہوگا۔
میری اور شہباز کی شادی؟ وہ کبھی امی کو دیکھ رہی تھی تو کبھی سامنے پڑے میز پر رکھے مٹھائی کے ٹوکرے کو۔
امی, مجھے لگتا ہے کہ غلط فہمی مجھے نہیں بلکہ شہباز اور قادر چچا کو ہوئی ہے۔ میں مر کر بھی اس مغرور لڑکے سے شادی نہیں کروں گی۔ پہلے بھی آپ کو کئی بار بتا چکی ہوں کہ میں شہباز سے شادی نہیں کرسکتی۔ آپ کو فوراً منع کردینا چاہیے تھا۔ وہ تقریباً چیختے ہوئے بولی۔
ہوش سے کام لو بیٹا! اس طرح جذباتی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تمہارے باپ کے مرنے کے بعد اس گھر کا ہر فیصلہ تمہارے چچا نے کیا ہے اور بہتری اسی میں ہے کہ تم اس فیصلے کے آگے اپنا سر جھکا دو۔ امی نے پتھر دل سے یہ بات کہہ دی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ اپنی بیٹی کی تقدیر کا فیصلہ وہ کبھی نہیں بدل سکتیں، جو بچپن سے رسموں رواجوں کو گواہ بنا کر کیا گیا تھا۔
آپ اتنی کمزور ہوں گی میں نے کبھی نہیں سوچا تھا امی! اپنی بیٹی کیلئے اس کی خوشی کیلئے دو لفظ بولنے کی کوشش نہیں کرسکیں؟ آپ جانتی ہیں کہ میں اُس سے شادی نہیں کروں گی۔ پھر بھی آپ اُن کے سامنے خاموش رہیں؟ وہ ابھی تک جارحانہ انداز میں بول رہی تھی۔
کمزور نہیں ہوں بیٹا! ایک عورت ہوں اور سب سے بڑھ کر ایک لڑکی کی ماں ہوں۔ اور ماں کبھی اپنی اولاد کو دکھ میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ جو ہورہا ہے اُسے ہونے دو بیٹا! اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ انہوں نے سحر کے قریب آتے ہوئے کہا۔
میں آپ کو اپنی طاقت سمجھتی رہی ہوں امی! ابو کے مرنے کے بعد ہمارا سب کچھ تو آپ ہی تھیں امی! یہ گھر، دولت، یہ سب کچھ آپ کا ہے۔ اس گھر میں ہر فیصلہ آپ کا ہونا چاہیے۔ شہباز اور قادر چچا کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم پر اپنی خواہشات اور فیصلوں کی تلوار لٹکائیں۔ کاش کہ آج ابو زندہ ہوتے تو ہمیں کسی کے اشاروں پر ناچنے کیلئے اپنی مرضی اور خواہشات کا گلا نہ گھوٹنا پڑتا۔
وہ اگر زندہ بھی ہوتے، تو بھی اس فیصلے اور تمہاری قسمت کو بدل نہیں سکتے تھے۔ فضیلت بیگم نے سامنے دیوار پر لگی نادر شاہ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا,
قسمت نہ بھی بدل سکتے ،مگر کم از کم کوشش ضرور کرتے۔ آپ کی طرح اپنی بیٹی کے مستقبل کو تاریک کرنے کے اس یکطرفہ فیصلے کے سامنے یوں بے بسی کی تصویر نہ بنتے۔ سحر نے مایوسی سے ایک نظر امی پر ڈالی اور سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔
جس باپ کی عقیدت میں تم اپنی ماں کی محبت اور ممتا پر شک کررہی ہو، اس باپ نے تمہارا نام تک رکھنے سے منع کردیا تھا! سحر کے کانوں سے جب یہ بات ٹکرائی تو اس کے قدم وہیں رک گئے۔
امی پلیز! اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے ابو پر الزام لگانا بند کریں۔ اس نے مڑے بغیر کہا۔
ناکامیاں؟؟ میں نے تو ساری عمر، ساری جوانی تم دونوں کی تربیت میں گزار دی! بیٹے کو اگر باپ پر جانا تھا تو پھر بیٹی کیوں ماں پر نہیں گئی۔ تمہیں بہت مان ہے نا اپنے باپ پر! اُس باپ پر جس نے نہ تمہارے پیدا ہونے پر کوئی خوشی منائی نہ تمہیں اپنی بیٹی تسلیم کیا۔ آخر تھا تو وہ قادر کا بھائی نا! خون کو تو خون پر جانا تھا اور تم اپنی ماں پر الزام لگارہی ہو۔۔۔ اس کی ممتا پر سوال اٹھا رہی ہو۔ وہ چلتے چلتے نادر شاہ کی تصویر کے پاس چلی آئیں۔ میں نے ساری عمر تمہارے باپ کا کردار تم دونوں سے چھپا کر رکھا تاکہ تمہاری نظروں میں اس کا جو مقام ہے وہ قائم رہے۔ مگر تم نے مجھے مجبور کردیا ہے۔
سحر کے پاؤں وہیں سن ہوچکے تھے۔ ایک ایک لفظ اسے اپنی سوچ میں پیوست ہوتا محسوس ہورہا تھا۔ اُسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہورہا تھا۔ وہ بت بنی امی کی ساری باتیں سن رہی تھی۔ مڑ کر دیکھنے کی ہمت ہی نہ رہی تھی اُس میں۔
اتنا کافی ہے یا اور بتاؤں تمہیں, فضیلت بیگم اس بارے میں اپنے غصے کو قابو میں نہیں رکھ سکیں۔
اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر ایک لڑکی کی جان بچانے کیلئے انہوں نے جان کیوں دے دی؟ سحر کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ وہ بولنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور اس نے مڑ کر امی کی طرف دیکھا۔
جھوٹ بولا تھا میں نے۔۔۔ انہوں نے کسی کی خاطر جان نہیں دی۔ وہ تو خود اپنی کھودی ہوئی قبر میں اتر گیا۔ امی کی آنکھیں اب تر ہونے لگیں تھیں۔
کونسی قبر؟ آپ کیا چھپا رہی ہیں مجھ سے؟ سحر کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔
شہر کی سب سے مشہور رقاصہ کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا تمہارا باپ۔ پہلے صرف رقص کی محفلوں میں ملتا تھا اس سے ،مگر پھر گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ اُس کا اپنے گھر میں آنا جانا مہمانوں کی طرح ہوگیا تھا۔ نہ میری کوئی فکر نہ اپنے بچوں کی کوئی پرواہ۔۔۔ اور پھر ایک دن خبر ملی کہ تمہارے باپ نے اس رقاصہ سے شادی کرلی ہے۔ آنسوؤں کی قطاریں فضیلت بیگم کے چہرے پر سے ہوتی ہوئیں قدموں میں گر رہی تھیں۔ جبکہ سحر اپنی آنکھیں بے یقینی میں ڈبوئے کسی بے جان بت کی طرح کھڑی تھی۔
شادی کرلی؟ سحر کے منہ سے صرف اتنا نکلا
ہاں شادی کرلی! مگر اُسے مایوسی ہوئی جب انجمن نے بیٹی کو جنم دیا۔ اسی خاندان کا مرد تھا تمہارا باپ! تمہاری پیدائش کو تو اس نے بھلا دیا تھا انجمن کی محبت میں ۔۔۔مگر جب خدا نے اسے دوسری آزمائش میں ڈالا تو وہ ناکام ہوگیا۔ اس نے خدا کی رحمت کو ریل گاڑی کی پٹڑی پر ڈال دیا۔ اسے مار دیا۔ دس دن بھی برداشت نہ کرسکا وہ اس کا وجود۔ امی کی آواز رندھ گئی۔ ان سے جیسے بولا نہیں جا رہا تھا۔
اور پھر انجمن نے ایک رات اُس کی شراب کی بوتل میں زہر بھر دیا! وہ ماں تھی۔۔۔ ممتا کا کسی پیشے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔پھر اگلے دن خبر چھپی کہ شہر کی مشہور رقاصہ نے اپنے شوہر کے ساتھ خودکشی کرلی۔ امی نے اپنے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہا۔
سحر اب تک خاموش تھی۔ وہ سرجھکائے زمین کو تکتے جارہی تھی۔ اس کے اندر ایک طوفان برپا تھا جو اُس کے اندر امید اور ہمت کے درختوں کو اکھاڑ اکھاڑ کر پھینک رہا تھا۔ آپ کا اس بات کو چھپانا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر کبھی شہباز ، چچا یا کسی اور نے اس بات کو کیوں نہیں چھیڑا؟ سحر نے خاوشی کا بت بالاآخر توڑ دیا۔
وہ کیوں چھڑیں گے اس بات کو ۔۔۔جس سے اس خاندان کے مردوں کی توہین ہو! امی نے معنی خیز لہجے میں جواب دیا۔
مجھے معاف کردیں امی! میں نے آپ کو غلط سمجھا! آپ کی محبت پر انگلی اٹھائی سحر کی آنکھیں بھر آئیں ۔وہ امی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ اُسے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہورہی تھی۔ اپنے اندر دوڑنے والا خون اُسے تیزاب کی مانند اندر سے جلا رہا تھا۔
بس بس میری جان! ماں اپنی اولاد سے ناراض نہیں ہوتی بلکہ اُسے تو اپنی اولاد پر فخر ہوتا ہے، جب وہ اپنی غلطی تسلیم کرے۔ امی نے سحر کو اپنے سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
اب آپ جو کہیں گی میں وہی کروں گی۔ بس آپ میرے الفاظ کو نظر انداز کردیں۔ اُس نے امی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دباتے ہوئے کہا۔
بیٹا میں نے شہباز سے تمہاری شادی کا فیصلہ، تمہاری سوچ کو دیکھتے ہوئے ہی کیا تھا۔ مجھے پورا بھروسہ ہے اپنی بیٹی پر کہ وہ سب کی سوچ بدل دے گی۔ وہ رسموں کے بتوں کو توڑ دے گی ۔امی نے اس کے گال سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے کی جانب چل دیں۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کررہی تھیں ،جیسے دل سے ایک بوجھ ہٹ گیا ہو۔ مگر کمرے سے نکلتے وقت وہ دروازے کی اوٹ میں موجود عادل کو نہیں دیکھ پائی تھیں ۔ سحر نے دیوار سے نادر شاہ کی تصویر ہٹا دی تھی۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
میں نے سوچا لیا ہے اور اب اگر تم مجھے معاف کر بھی دو تو بھی میں خود کو سزا سے نہیں بچا پاؤں گا۔ حوصلہ ہی نہیں رہا سحر! کہ میں تم سے تمہارے سامنے یہ سب کچھ کہہ سکوں۔ اس لیے قلم کا سہارا لے رہا ہوں۔۔۔ اور مجھے اُمید ہے کہ جب میرے الفاظ تمہاری آنکھوں سے ٹکرائیں گے تو تم ان کے اندر ضرور جھانکو گی۔ تمہیں وہ سارے درد، ساری محرومیاں اور بکھرے ہوئے خوابوں کی ساری کرچیاں دکھائی دیں گی۔ محبت میرے بس کی بات کہاں تھی سحر! مجھ میں تو رشتہ نبھانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے سحر! کاش کہ میرے پاس کوئی ایک رشتہ بھی باقی بچا ہوتا تو محبت مجھ سے یوں نہ روٹھتی۔ تمہاری بے پناہ، بے لوث محبت بھی مجھے ان محرومیوں سے نہیں نکال سکتی ،جو بچپن سے میرے وجود کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا کمزور ساتھ تمہیں تمہارے جذبوں، تمہارے ارادوں سے دور نہ کردے۔ تمہیں تمہاری منزل ملنی چاہیے سحر! جس کا ہمیشہ سے تم نے خواب دیکھا ہے۔ میں تمہاری منزل میں رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ اس سے پہلے کہ تم کوئی غلط قدم اٹھا لو میں تمہیں اس محبت سے آزاد کرتا ہوں۔ تمہارے نصیب کو اپنے نصیب سے الگ کرتا ہوں۔ میں تمہیں پا بھی لوں تو بھی تمہیں کوئی خوشی نہیں دے سکوں گا۔ تمہارے سارے خواب ٹوٹ جائیں گے۔ تم جانتی ہو سحر کے خوابوں کے ٹوٹنے پر کس قرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ میں اُس عذاب کو جھیل چکا ہوں۔ تمہیں نہیں گزرنے دوں گا اُس عذاب سے! محبت کا کیا ہے وہ تو گردش کرتی ہی رہتی ہے۔ محبت کبھی نہیں رُکتی! خاص طور پر ایک بھٹکی ہوئی محبت! اُس کو جب بھی، کہیں بھی کوئی دروازہ کھلا ملتا ہے، وہ وہیں پناہ لے لیتی ہے اور پھر پرانی اور بھیانک یادوں کو وہاں سے نکلنا پڑتا ہے۔
محبت کو قید مت کرنا سحر! اُسے کھلا چھوڑ دینا۔ وہ لوٹ کر ضرور آئے گی۔ مجھ سے وعدہ کرو سحر کہ تم مجھے بھلا کر ایک نئی زندگی شروع کرو گی ۔۔۔پھر میں سمجھوں گا کہ تم نے مجھے معاف کردیا ہے۔ مجھے برا بھلا کہنا، برے ناموں سے پکارنا مگر کبھی بے وفا مت کہنا! بس اب اور کچھ نہیں کہنا جس طرح تم اپنے ناول میں سے غلطی ہونے پر ورق پھاڑ کر پھینک دیتی ہو۔۔۔ بالکل اسی طرح اپنی زندگی کی کتاب سے مجھے غلطی سمجھ کر نکال دینا۔ اک نئی تحریر لکھنا سحر! اک نیا خواب دیکھا، ایک نئی جدوجہد شروع کرنا، ایک نئی منزل کا راستہ بنانا، خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔ میرے پاس تمہیں دینے کیلئے دعا کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ایک بار پھر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے معاف کردیا ورنہ میری روح تڑپتی رہے گی۔ مجھے قبر میں بھی سکون نصیب نہیں ہوگا۔ اب قلم بند کرتا ہو کیوں کہ اب جانے کا وقت آگیا ہے۔ غم کی یہ رات آخری رات ہے۔ صبح کے نئے سورج کے طلوع ہوتے ہی سارے غم اسی رات کے اندھیروں کے ساتھ غائب ہوجائیں گے۔ کل تمہاری سالگرہ ہے نا! کل سے ایک نئی زندگی شروع کرنا اور اب جاتے جاتے تمہارے نام ایک نظم, اُمید ہے کہ تمہیں پسند آئے گی۔
آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے، حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
پرِ تو خور سے ہے، شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں اک عنایت کی نظر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تفافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے تم کو خبر ہونے تک
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جُز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک,
خاک ہو جاؤں گا تم کو خبر ہونے تک,
تمہاری خوشی اور معافی کا طلبگار ’’عامر‘‘
کچھ سوچے سمجھے بنا لکھ تو دیا ،مگر پتہ نہیں اسے پسند بھی آئے گا کہ نہیں۔ قلم بند کرکے اس نے ناول سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور لیمپ آف کردیا۔
ہو گیا اختتام ناول کا ؟ آصف نے کروٹ بدلتے ہوئے پوچھا
ہاں یار لکھ تو دیا۔ دیکھو اب اسے پسند بھی آتا ہے کہ نہیں! عامر نے بے یقینی سے جواب دیا۔
تم نے بات کی اس سے اٹلی والی؟ آصف نے لیٹے لیٹے پھر سوال کیا۔
ہاں! بات کی تھی۔۔۔ اور اُس کا ردعمل بھی بہت مثبت تھا۔ بس یار دعا کرو کہ کسی طرح یہ سارا وقت آسانی سے گزر جائے، میں نے اُسے تو حوصلہ دے دیا ہے لیکن اندر سے ایک عجیب سا خوف کھائے جارہا ہے۔
فکر مت کرو, جیسے تین سال گزر گئے ہیں بنا کسی مشکل کے، اسی طرح یہ مہینے بھی گزر جائیں گے۔ اب سوچنا بند کرو اور سکون سے سو جاؤ مجھے بھی نیند آرہی ہے۔
او کے صبح بات ہوگی۔ شب بخیر عامر نے کمبل اوڑھتے ہوئے کہا۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
کتنی خاموشی ہے باہر! آس پاس موجود بڑے بڑے گھروں میں سوائے روشنیوں کے اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے سوچا, کیا یہ کسی بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر گھر میں ایک ہنگامہ ہو، ہر گھر میں ایک طوفان برپا ہو، ہر گھر کی ایک ایک دیوار پر وہی داستان لکھی ہو جو ہمارے گھر میں لکھی ہے۔ اگر ایسا ہے تو باہر سے گزرنے والے غریب لوگ ان گھروں کو رشک کی نگاہ سے کیوں دیکھتے ہیں ؟۔۔۔کیوں ان کی بھی خواہش جاگ جاتی ہے کہ کاش ان کے پاس بھی ایسا ہی گھر ہو ؟ انہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ دنیا جہان کی تمام آسائشیں اور خوشیاں ایسے ہی گھروں میں رہنے والوں کو نصیب ہوتی ہیں۔ آسائشوں اور خوشیوں کا آپس میں اتنا گہر تعلق نہیں ہے، جتنا لوگ سوچتے ہیں۔ میرے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ ایک بڑا گھر، دولت، مہنگے کپڑے، اچھا کھانا، سب کچھ تو ہے میرے پاس، تو پھر میں خوش کیوں نہیں ہوں؟ ایک طرف وہ حاحرہ جو سارا دن ہمارے گھر پر کام کرتی ہے۔۔۔ مہینے بھر کی محنت کے بعد جتنے پیسے اُسے ملتے ہیں، اتنے پیسوں سے تو میں نے کبھی ایک ڈریس نہیں خریدا! چند ہزار روپوں کے عوض اس کے چہرے پر جو اطمینان نظر آتا ہے۔۔۔ وہ مجھے کیوں نصیب نہیں ہوتا, ہر آسائش ہونے کے باوجود اس گھر میں وہ سکون کیوں نہیں ہے۔ کاش کہ لوگ رشک کی نگاہوں سے دیکھنے کے بجائے، ایسے گھروں کے اندر لکھی ہوئی داستانیں پڑھیں۔ وہ آہیں اور سسکیاں سنیں جو اقدار، مذہب اور رسموں کے تہہ خانوں میں قید ہیں۔۔۔ اور پھر فیصلہ کریں کہ انہیں اونچی اونچی دیواروں سے سجی حویلیاں چائیں یا پھر ایک اطمینان بھری زندگی۔ دولت بے شک خدا کی رحمت ہے ’’ر‘‘ کے اوپر نقطہ لگانے والے تو ہم لوگ خود ہیں۔
وہ خیالی دنیا سے ایک دم واپس لوٹ آئی جب اسے نیچے سے قادر چچا کی دہشت ناک آواز سنائی دی,
ابھی اور اسی وقت فیصلہ کرو فضیلت بیگم, ورنہ اُس کا انجام وہی ہوگا جو بہت سالوں پہلے اس کے باپ نے اپنی بیٹی کے ساتھ کیا تھا۔۔۔ اور بالکل ٹھیک کیا تھا اس نے۔ اگر آج وہ زندہ ہوتا تو تمہاری بیٹی کے کرتوت دیکھ کر شرم سے مر جاتا, قادر شاہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا تھا، جبکہ سحر سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آگئی۔
غلط کہہ رہے ہیں آپ, انہیں اگر شرم سے مرنا ہوتا تو تب مرجاتے جب ایک ناچنے گانے والی عورت کے قدموں میں جا گرے تھے وہ! سحر پھٹ پڑی۔ اُسے معلوم تھا وہ کس سے بات کررہی ہے، مگر اب اس کا صبر جواب دے گیا تھا ۔ اُس کے اس جواب پر قادر شاہ کا چہرہ مزید سرخ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ کھڑے شہباز کے تاثرات بھی ان سے مختلف نہ تھے۔
تم اندر چلو سحر, امی نے سحر کو تقریباً حکم دیتے ہوئے کہا۔
کیوں اندر جاؤں میں؟ میری بات ہورہی ہے تو میرے سامنے ہوگی ۔۔۔اور میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا! صرف وہی کہا ہے ،جو سچ ہے۔ انہیں برا اس لیے لگا کیونکہ اس خاندان کے مردوں کو اپنے بارے میں سچ سننے کی عادت نہیں ہے۔ سحر نے ان کی طرف دیکھے بغیر کہا! بھابھی رخشندہ نے تو ڈر کے مارے دروازے کے پیچھے پناہ لے رکھی تھی۔
سحر! تم خوامخواہ بات کو بڑھا رہی ہو! تم اندر چلو! میں اور امی بات کرتے ہیں چچا سے! عادل نے سحر کو اندر جانے کو کہا۔
کیا بات کریں گے آپ؟ کیا یہ آپ کہہ سکتے ہیں چچا سے کہ میری بہن آپ کے بیٹے سے شادی نہیں کرسکتی۔۔۔یا پھر یہ کہیں گے کہ میری بہن کو یہ رشتہ پسند نہیں ہے؟ کیا کہیں گے آپ؟ جھک کر سرجھکانے کو بات کرنا نہیں کہتے بھائی ۔۔۔بات ماننا کہتے ہیں۔۔۔ اور آپ نے آج تک ان سے بات کی ہی نہیں ،صرف مانی ہے۔ سحر کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس کا انداز دھیما پڑ گیاْ جبکہ عادل دائیں بائیں آنکھیں پھیرنے لگا تھا۔
جو حق مجھے میرے خدا نے دیا ہے، وہ میں کسی اور کے حوالے کیوں کروں ؟ میں رخشندہ نہیں ہوں بھائی! سحر کی آنکھوں میں بغاوت کی چمک ابھر آئی۔
تمہیں تمہارا حق دیا تھا! تمہیں یونیورسٹی بھیجا پڑھنے کیلئے ۔۔۔لیکن تم نے برسوں کی کمائی ہوئی خاندان کی عزت ملیا میٹ کردی۔ اسے اپنی خوش قسمتی سمجھو جو میں اپنے بیٹے کیلئے سب کچھ جان لینے کے بعد بھی تمہارا رشتہ قبول کررہا ہوں۔۔۔ ورنہ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ جو تم نے کیا ہے، اس کی سزا کیا ہوسکتی ہے۔ قادر شاہ نے اس کے قریب آتے ہوئے کہا اُن کی آنکھوں میں خون اتر چکا تھا۔
میں معافی مانگتی ہوں اس کی طرف سے بھائی صاحب! بچی ہے، ابھی نادان ہے میں اسے سمجھاؤں گی! امی نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
منتیں کرنا بند کریں امی ! یہی وہ کمزوری ہے عورت کی جو مرد کو اور بھی طاقت دیتی ہے خدا بننے کی!۔میں آپ کی اولاد ہوں امی، ان لوگوں کی جاگیر نہیں ہوں۔ میرے فیصلے کا اختیار آپ کو ہونا چاہیے امی! ان لوگوں کو نہیں!میں شہباز سے شادی نہیں کروں گی ۔۔۔کبھی نہیں کروں گی اور میں بھی دیکھوں گی کہ کون میرے ساتھ زبردستی کرتا ہے اور خدا کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اُس نے مضبوط لہجے میں شہباز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
جب ایک غیر لڑکے کے ساتھ گھومتی ہو۔۔۔ اس سے ملتی ہو، تو کیا اس کی اجازت ہے خدا کی طرف سے ؟ شہباز سے خاموش نہ رہا گیا۔
آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔میں کسی کے ساتھ نہیں گھومتی ۔اس نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا کہا۔وہ دفاعی پوزیشن میں چلی آئی تھی۔
صوفی کو بلاؤں یا خود ہی بتاؤ گی کہ کون ہے وہ لڑکا؟ قادر شاہ نے کرخت لہجے میں کہا۔
مم میرا کلاس فیلو ہے۔ سحر اندر سے ڈر گئی تھی ۔شائد انسان جب لاجواب ہوجاتا ہے تو اس کی ساری طاقت اور ساری دلیلیں اس کے اندر ہی سکڑ جاتی ہیں۔ اس کے جواب نے امی اور بھائی کو ہی نہیں بلکہ اپنے کمرے میں موجود رخشندہ کو بھی حیرت میں ڈال دیا تھا۔
یہ کیا سن رہی ہوں میں؟ امی نے پاس آکر اُسے جھنجوڑا,
آپ ٹھیک سن رہی ہیں۔۔۔ وہ میرا کلاس فیلو ہے اور بس, اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا میں نے ۔
کلاس فیلو سے سمندر پر اکیلے ملنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ کیا ہم جان سکتے ہیں؟ شہباز نے اس کے گرد سوالوں کا گھیرا مزید تنگ کرتے ہوئے پوچھا۔
تم جو خواب دیکھ رہے ہو وہ کبھی پورے نہیں ہوں گے شہباز! تمہیں کیا لگتا ہے کہ مجھ پر اس طرح کے الزامات لگا کر تم مجھے خود سے شادی پر مجبور کردو گے؟سحر نے اپنے الفاظ کو یکجا کرتے ہوئے کہا۔
الزام؟ کونسا الزام؟ میں نے تو صرف پوچھا ہے۔۔۔ الزام تو تم خود ثابت کررہی ہو اپنی بوکھلاہٹ سے۔ شہباز کے جواب نے سحر کو مزید جکڑ لیا تھا۔
بس فضیلت بیگم ,بہت ہوگیا تماشہ, بہتر ہے کہ اپنی بیٹی کو خود سمجھا دو ۔۔۔اور اسے اچھی طرح بتا دو کہ جو فیصلہ بڑوں نے کیا تھا۔۔۔ اسی فیصلے پر سر جھکا دے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ کیا ؟ مار ڈالیں گے مجھے ؟ کسی ٹرین کے آگے پھینک دیں گے؟۔۔۔ بتائیں اس کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں آپ؟سحر نے قادر چچا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
آپ جو کرنا چاہتے ہیں کرلیں۔۔۔ لیکن یہ خیال اپنے دل سے نکال دیں کہ میں آپ کے اس مغرور بیٹے سے شادی کروں گی۔
تو تم بھی اپنا خیال دل سے نکال دو کہ جس لڑکے سے چاہو گی۔۔۔ اس سے تمہاری شادی ہوگی۔ چلو شہباز! کل مولوی کو ساتھ لے کر آئیں گے۔ اسے کل تک سوچنے کا موقع دیتے ہیں۔انہوں نے شہباز کو چلنے کا کہا۔
بہت شوق تھا نا اسے یونیورسٹی بھیجنے کا! یہی کچھ ہونا تھا، اسی لیے آپ کو میں نے اور چچا نے منع کیا تھا۔ مگر نہیں! آپ پر تو اس کی نیک تربیت کا بھوت سوار تھا۔ اتنی محبت اور اتنے دعووں کا کیا نتیجہ نکلا؟؟ منہ کالا کر ہی لیا نا۔۔۔ اور پتہ نہیں کب سے کررہی ہے۔ ٹھیک کیا تھا ابو نے ۔۔۔ورنہ پتہ نہیں وہ کیا کرتی ہمارے ساتھ! عادل کا ایک ایک لفظ اس کے دل میں خنجر بن کر اتر رہا تھا۔ اس کا دل چاہاکہ وہ چیخے چلائے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ کبھی اپنی عزت نیلام نہیں کی ،لیکن وہ نظریں جھکائے خاموش رہی۔ اسے اندازہ تھا کہ مرد اگر عورت میں عیب تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگے، تو اس کے سامنے کسی قسم کی کوئی دلیل حیثیت نہیں رکھتی۔ امی بھی خاموش کھڑیں سب سن رہی تھیں۔ کیا وہ واقعی لاجواب ہوگئی تھیں۔ سحر نے سوچا,
نہ نہ عادل بیٹا! اتنا غصہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ آرام سے بات کرو، اگر اس کی سمجھ میں بات آگئی تو اسے ہمارے فیصلے پر اعتراض نہیں ہوگا ۔آخر ابھی بچی ہے، نادان ہے۔ دونوں مل کر سمجھاؤ گے تو سمجھ جائے گی۔ چچا قادر نے وحشت بھری نظروں سے امی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا اب ہم چلتے ہیں! کل نکاح کی تیاری بھی کرنی ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک سرسری نگاہ سحر پر ڈالی اور گھر کے خارجی دروازے کی جانب بڑھ گئے۔ سحر نے سر اٹھا کر انہیں بے بسی سے جاتے ہوئے دیکھا۔ شہباز نے بھی مڑ کر اس کی طرف دیکھا! سحر کو اس بار اس کی آنکھوں میں کوئی وحشت دکھائی نہیں دی اور نہ ہی غرور اور جیت کی چمک۔ ایک عجیب سی لہر تھی ،جو کسی طوفان کے باعث بے بس ہوتی ہوئی اپنی حد سے تجاوز کررہی تھی۔
امی اسے کہیے گا کہ تیار رہے کل دوپہر کو ۔۔۔اور ہاں! سادہ سی نکاح کی رسم ہوگی، کسی کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جو تماشہ اس گھر میں لگایا ہے اس نے وہ اسی گھر تک رہے۔ عادل یہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
امی آپ کیوں خاموش ہیں! کچھ بولتی کیوں نہیں۔ بھائی سے کہیے ناکہ میں شہباز سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اس نے التجائی لہجے میں کہا تو جواب میں امی کے تھپڑ نے سحر کا چہرہ سرخ کردیا تھا۔
یہ دن دیکھنے کیلئے میں زندہ تھی؟ یہ تھی میری تربیت؟ میرے سارے اندازے غلط ثابت کردئیے تم نے سحر, انہوں نے سحر کو بن دیکھے کہا۔
امی! !سحر نے حیران ہوتے ہوئے زیرلب کہا۔
آپ کو بھی اپنی بیٹی پر یقین نہیں؟ اُس کی آنکھیں زاروقطار روپڑیں۔
یقین ہی تو تھا ،لیکن تم نے میرے اعتماد کو توڑا ہے۔ تمہاری وجہ سے آج میں لاجواب ہوئی ہوں۔۔۔ اور دینے کیلئے کوئی دلیل نہیں! کرنے کیلئے کوئی فریاد نہیں چھوڑی تم نے میرے پاس! امی نے خشک لہجے میں سحر کو دیکھے بغیر کہا۔
پلیز ایسا مت کہیں امی! میں نے کچھ نہیں کیا! میں صرف اس لڑکے کو پسند کرتی ہوں ۔کبھی اس سے تنہائی میں نہیں ملی۔بس میں اُس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ اور اپنی پسند سے شادی کرنا میرا حق ہے امی! سحر نے امی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دباتے ہوئے کہا۔
تمہیں سارے حقوق صرف اپنے ہی یاد ہیں؟ تم اگر مجھے یہ بات پہلے بتا دیتی تو آج دوسروں سے سن کر مجھے شرمندگی نہیں ہوتی۔ اب کس منہ سے میں بھائی صاحب کے آگے گڑگڑاؤں؟ تمہارے سامنے وہ ابھی ابھی میرے منہ پر مار کر گئے ہیں میرے دعوؤں کو، دلیلوں کو اور میری تربیت کو۔
تو مت گڑگڑائیں امی! میں آپ کو ان کی منتیں کرنے کو نہیں کہہ رہی ۔آپ بس دو ٹوک الفاظ میں ان سے کہہ دیں کہ میں ان کے بیٹے سے شادی نہیں کرسکتی۔
تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ اس بات کو مان لیں گے اور اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ جائیں گے؟ امی نے اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا! بہتر ہے کہ اب جو ہورہا ہے، وہ ہونے دو۔۔۔ اسی میں ہی تمہاری اور ہم سب کی بھلائی ہے۔ تمہاری اس حرکت کے بعد تمہارے لیے اس سے اچھا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
میں محبت کرتی ہوں اس سے امی، اور محبت سے بھی بڑھ کر شائد ہمدردی ہے مجھے اس سے۔ اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ ایک محبت ہے۔۔۔ اور وہ بھی آپ کہہ رہی ہیں کہ میں چھین لوں اس سے؟ محبت کرنا گناہ تونہیں ہے امی۔
محبت کرنا گناہ نہیں ،لیکن سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنا۔۔۔ اعتماد کو ریزہ ریز کردینا کہاں کی محبت ہے؟ تم مجھے بتاتی تو سہی اُس لڑکے کے بارے میں! کم سے کم میں تمہیں کوئی اچھا مشورہ تو دیتی۔لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا! عقلمندی اسی میں ہے کہ تم شہباز سے نکاح کرلو!
دیکھو بیٹا! انہوں نے اپنا لہجہ دھیمہ کرتے ہوئے محبت سے کہا! محبت کوئی بری چیز نہیں ہے ،لیکن اس خاندان میں وہ صرف مرد کے لیے جائز ہے۔ اگر عورت کرے تو گالی بن جاتی ہے۔ تمہیں مایوس کرنا میرا مقصد ہرگز نہیں ہے، لیکن تم سمجھدار ہو اور تمہیں موقع مل رہا ہے کہ ان لوگوں کی سوچ اور رسموں کو بدلنے کا۔۔۔ اگر تم ایک محبت کو قربان کرکے آئندہ آنے والی اس خاندان کی لڑکیوں کی زندگی بدل سکتی ہو تو یہ کوئی برا سودا نہیں ہے۔ حریم تمہارے سامنے ہے ۔۔۔ذرا سوچو تمہارے کسی بھی غلط فیصلے سے اس کی زندگی پر کتنا گہرا اثر پڑے گا۔ تم اپنے بھائی کو بھی اچھی طرح جانتی ہو۔ وہ پہلے ہی حریم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ذرا سوچو بیٹا,پھر محبت کا کیا ہے؟ دیکھنا ایک دن شہباز بھی تم سے محبت کرے گا۔۔۔ تمہاری عزت کرے گا۔ تم اپنے آپ کو ثابت کرسکتی ہو کہ تم غلط نہیں ہو۔ فیصلہ اب تمہارے ہاتھ میں ہے بیٹا! ٹھنڈے دماغ سے سوچو۔۔۔ مجھے امید ہے کہ تم کسی نتیجے پر پہنچ جاؤ گی۔ امی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور باہر صحن میں چلی گئیں۔ اس دوران بھابھی رخشندہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں تھیں۔
سحر! تم غلط نہیں ہو!امی کی باتیں بھی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میں تمہیں یہی مشورہ دوں گی کہ تم اس معاملے پر عامر سے بات کرو ۔۔۔اسے دھوکہ دئیے بغیر بھی تم اسے چھوڑ سکتی ہو۔
بھابھی آپ کو اس کا نام کیسے معلوم ہوا؟ وہ ایک دم چونک گئی تھی۔
تمہارے ناول میں پڑھا تھا۔ تم نے ہی تو کہا تھا کہ اس کہانی کے کردار حقیقت ہیں۔ میں تو تب ہی سمجھ گئی تھی۔
پتہ نہیں بھابھی وہ کردار حقیقی ہے بھی یا صرف ایک افسانہ ہے۔ کاش میں نے وہ ناول کبھی نہ لکھا ہوتا۔ کہانی میں اس کا کردار لکھتے لکھتے اس سے حقیقت میں محبت کر بیٹھی ۔۔۔ اور اس کہانی کا انجام بھی میں خود نہیں لکھ پائی۔۔۔ انجام بھی اسی کے ہاتھوں میں رکھ دیا۔ سحر پلکیں جھپکائے بغیر خیالانہ انداز میں بولتی چلی گئی۔
شہباز بھائی سے شادی کے بعد تمہاری زندگی بھی وہی ہوگی، جو میری ہے۔۔۔ اور یہاں تو صرف عادل ہے۔ وہاں تو تمہیں ابا کو بھی برداشت کرنا ہوگا۔ دو دو قوتوں سے ٹکرا پاؤ گی تم سحر؟میں خاموش دلی سے سب سہہ لیتی ہوں اور اب تو عادی ہوگئی ہوں ۔۔۔لیکن تم کسی بھی غلط بات پر خاموش نہیں رہ سکو گی۔
تو پھر میں کیا کروں بھابھی, اس نے پوچھا۔
جو بھی کرو سحر !لیکن اپنی زندگی برباد مت کرو۔ اگر آخر میں یوں ہار ماننا تھی، تو یہ جنگ چھیڑنی ہی نہیں تھی۔ تمہارا انجام دیکھنے کے بعد آئندہ کوئی بھی لڑکی اپنے حقوق کیلئے نہیں کھڑی ہوگی۔یا اپنا دل مردہ کر لو سحر۔۔۔ یا پھر پتھر ۔یہی دو طریقے ہیں زندگی گزارنے کے۔
کیا مطلب بھابھی! میں سمجھی نہیں سحر نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
یا تو شہباز سے شادی کرلو اور دل سے ساری امیدیں اور آنکھوں سے سارے خواب نکال دو۔۔۔ یا پھر سارا ڈر اور خوف نکال کراپنی مرضی کی زندگی گزارو ۔۔۔جس کی ہمیشہ سے تمہیں خواہش رہی ہے۔
کیسے نکال دو ں ساری امیدیں ،سارے خواب؟اس شخص کو کیسے راستے میں چھوڑ دوں جس نے میری راہوں سے کانٹے چننے کے وعدے کیے ہیں۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ سحر تم باتوں ہی باتوں میں ایک دن مجھے کھو دو گی ۔میں کیسے اس کے اس خدشے کو سچ ثابت کردوں؟؟ وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ سحر مجھے ڈر لگتا ہے کہ شہباز اپنی پوری شان و شوکت اور آب و تاب سے تمہیں مجھ سے چھین نہ لے ۔میں اُسے ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ محبت کی طاقت کے آگے شان و شوکت کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ آب و تاب سے چمکتے چاند کو گرہن لگا دے گی محبت! میں ان سب دعوؤں سے کیسے پیچھے ہٹ جاؤں بھابھی ؟
مت پیچھے ہٹو سحر! اپنی کہانی کی طرح اپنے اندر ہمت پیدا کرو۔انجام کی پرواہ کیے بغیر آنکھیں بند کرکے محبت کا ہاتھ تھام لو ۔۔۔ورنہ ایسا نہ ہو کہ ساری زندگی پچھتاوے میں گزر جائے! بھابھی نے سحر کو ایک نیا راستہ دکھاتے ہوئے کہا تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔
تم جو سوچ رہی ہو ،میرا بھی وہی مطلب ہے! جیسا تم نے کہانی میں لکھا تھا ویسا ہی کرو ۔۔۔آزاد ہو جاؤ سحر۔۔۔ نکل جاؤ اس قید سے! بھابھی نے چمکدار آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
مگر بھابھی۔۔۔۔۔۔
اگر مگر کا وقت نہیں ہے سحر, رات نکلتی جارہی ہے۔ جو کرنا ہے آج رات ہی کرنا ہوگا، ورنہ کل کا سورج تمہارے قدموں میں بیڑیاں پہنا دے گا۔ بھابھی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ عامر سے بات کرو! امی اور عادل کو میں سنبھال لوں گی,
لیکن بھابھی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری فکر مت کرو سحر!ہمیشہ میری خاطر تم نے لڑتی آئی ہو سب سے , تو کیا میں اتنا بھی نہیں کرسکتی؟رخشندہ نے اس کی بات کاٹی۔
اگر میں پکڑی گئی تو آپ جانتی ہیں کیا ہوگا؟ میرے ساتھ ساتھ آپکی اور حریم کی زندگی بھی برباد ہو جائے گی۔
ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ امی اور عادل رات کو سونے سے پہلے چائے پیتے ہیں ۔میں چائے میں نیند کی گولیاں ملا دوں گی۔۔۔ اس طرح تمہیں کوئی بھی نہ دیکھ پائے گانہ روک پائے گا۔۔۔ اور حاجرہ ویسے ہی گھر پر نہیں ہے۔۔۔ تم آسانی سے جا سکتی ہو۔ اب وقت ضائع کیے بغیر عامر سے بات کرو۔ میں چائے بناتی ہوں! بھابھی نے اسے تلقین کی اور کچن میں چلی گئیں۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
اوہ مجنوع, فون بج رہا ہے تمہارا۔ آصف نے آنکھیں ملتے ہوئے بے زاری سے عامر کو آواز دی مگر وہ جوں کا توں لیٹا رہا۔ یہ چائنہ کا مجنوع بھی عجیب ہے۔ پتہ نہیں کب سے فون بج رہا ہے اور خود آرام سے پڑا نیند کے مزے لے رہا ہے۔ حالانکہ اصل مجنوع تو رات بھر سویا نہیں کرتا تھا۔ آصف نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔ اتنی دیر میں کال ڈراپ ہوگئی تھی۔
کیا ہوا ہے؟ کیوں بڑبڑا رہے ہو؟ عامر نے آنکھیں کھولے بغیر کروٹ بدلتے ہوئے پوچھا۔
پتہ نہیں کتنی دیر سے تمہارا فون بج رہا تھا اور تمہیں کوئی ہوش ہی نہیں۔
فون بج رہا تھا اس وقت؟؟ میں نے تو 7 بجے کا الارم لگایا تھا!عامرنے یکدم آنکھیں کھول کر سائیڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے کہا۔
یہ واقعی مجنوع ہے۔ اس کا جواب سن کر آصف نے سوچا۔
سحر کا فون! رات کے اس ٹائم؟ عامر کو فون دیکھتے ہی حیرانی ہوئی۔
تمہیں یاد کررہی ہو گی۔ آصف نے اُسے نا چاہتے ہوئے بھی چھیڑا۔
ہاں ،مگر رات کے اس پہر تو کبھی اس کی کال نہیں آئی ۔
تو خود کال کرکے پوچھ لو ۔۔۔لیکن ذرا باہر صحن میں جا کر۔مجھے سونے دو ،بہت نیند آرہی ہے۔ آصف نے تقریباً اونگھتے ہوئے کہا۔
فکر مت کرو! عامر نے سحر کا نمبر ملاتے ہوئے کہا۔ پہلے کبھی تمہارے سامنے اس سے بات کی ہے جو اب کروں گا؟ تم آرام سے سو جاؤ۔
نہیں مجھے نیند نہیں آرہی , سحر نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا ۔اس نے فوراً ہی کال اٹینڈ کرلی تھی۔
ارے نہیں نہیں, تمہیں نہیں کہہ رہا آصف سے کہہ رہا تھا ۔عامر کمرے سے باہر چلا آیا۔
خیریت ہے رات کے اس وقت پہلے کبھی تم نے کال نہیں کی؟ عامر نے کال کی وجہ دریافت کی۔
خیریت ہی تو نہیں ہے عامر! میں بہت پریشان ہوں! سحر نے تیزی سے کہا۔
کیا پھر جھگڑا ہوگیا تمہارے بھائی اور بھابھی کا؟ عامر کو حالات کی سنگینی کا علم ابھی نہیں تھا۔
عامر! چچا اور بھائی کل زبردستی میرا اور شہباز کا نکاح کروا رہے ہیں۔ انہیں میرے اور تمہارے بارے میں پتہ چل گیا ہے ۔عامر, میں شہباز سے شادی نہیں کرسکتی۔ عامر نے آج سے پہلے سحر کو اتنے ٹوٹے ہوئے لہجے میں بات کرتے نہیں سنا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا۔۔۔ا اسے لگا جیسے تمام ستارے ابھی اس پر ٹوٹ کر گر پڑیں گے۔ ایک لمحے میں ہی اسے اپنے تمام خواب بکھرتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ پیروں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
ہیلو! عامر! تم چپ کیوں ہوگئے ،جواب دو۔ اس کے کانوں سے سحر کی بے چین آواز ٹکرائی تو وہ خیالی دنیا سے واپس آگیا۔
سن رہا ہوں تم بولو, اُس نے کانپتے ہوئے کہا۔
عامر! میں تمہارے علاوہ کسی اور کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزار سکتی! میں نے صرف تمہارے خواب دیکھے ہیں۔ مجھے وہ سارے وعدے یاد ہیں عامر, مجھے اپنے سارے دعوے یاد ہیں۔ پلیز مجھے اس کشمکش سے نکال لو۔ تمہاری سحر کو آج اندازہ ہوا ہے کہ وہ کتنی کمزور ہے۔ مجھے آج اپنے لڑکی ہونے کا شدت سے احساس ہوا ہے۔ اس کی باتوں سے عامر کو لگا کہ وہ بہت بوکھلائی ہوئی تھی۔
تم نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ پلیز مجھے بتاؤ سحر, اس سے پہلے کہ میرا دل دھڑکنا بھول جائے۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیاتھا۔ اس کی ٹانگوں سے ساری طاقت غائب ہوگئی تھی۔
عامر! میں صبح ہونے سے پہلے یہ گھر چھوڑ دوں گی۔ اگر تم میرا ساتھ دو۔پھر ہم یہاں سے بہت دور چلے جائیں گے۔ اس کی آواز میں عجیب سے تھکاوٹ تھی، جیسے برسوں سفر کرنے والے مسافر کو اس کی منزل نہ ملے ۔۔۔اور نہ اس کے پاس واپس لوٹ جانے کاراستہ بچا ہو۔
عامر کے پورے جسم میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا۔ اسے علم ضرور تھا کہ سحر اس سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔۔۔ لیکن یہ علم نہیں تھا کہ اتنی زیادہ محبت کرتی ہے کہ اپنا سب کچھ چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔ اس کی آنکھوں میں ایک مغرور سا نشہ طاری ہوگیا تھا۔
میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔پہلے بھی تھا اور آج بھی ہوں۔۔۔ لیکن پھر بھی تم ٹھنڈے دماغ اور حوصلے سے کام لو۔۔۔ جو تم کہہ رہی ہو، وہ نہ تو آسان ہے اور نہ ہی ہمارے حق میں ہے۔
سوچنے کا وقت نہیں عامر! مجھے یہاں سے نکلنا ہے ہر حال میں۔۔۔ ورنہ میری زندگی ایک ایسے انسان سے جوڑ دی جائے گی ،جس کی میں شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔
پھر بھی سحر مجھے کچھ سوچنے تو دو۔ اچانک سے تم نے اتنا بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔میں ذہنی طور پر تیار نہیں ہوں اس کیلئے۔۔۔ کچھ وقت دو مجھے ،میں تمہیں کال بیک کرتا ہوں۔ پلیز انتظار کرو۔ عامر نے دھڑکتے دل سے کہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی ۔۔۔لیکن پلیز جو بھی سوچنا ہے، جلدی سوچ لو۔۔۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
پریشان نہ ہو۔ میں اپنے دوست سے اس بارے میں مشورہ کرلوں، پھر تمہیں کال کرتا ہوں۔ عامر نے یہ کہتے ہی کال ختم کردی اور تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا کمرے کی طرف بڑھا۔
کیا مصیبت ہے یار۔ آصف نے بے زاری سے کہا،جب عامر نے ایک دم سے ا سکے اوپر سے کمبل کھینچ لیا۔
آنکھیں اور کان کھولو اور میری بات سنو۔ عامر نے جواب دیا۔
سب خیر تو ہے؟ اتنا گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ آصف اٹھ کر بیٹھ گیا۔
خیر نہیں ہے آصف! وہ گھر کو چھوڑنے کا کہہ رہی ہے! اس نے تیزی سے جواب دیا۔ گھر کو چھوڑنے کا؟ آصف نے حیران ہوتے ہوئے دہرایا ۔۔۔لیکن ہم نے تو ایڈوانس دے رکھا ہے اگلے دو مہینوں کا بھی۔
میں گھر کی مالکن کی بات نہیں کررہا۔ عامر نے اس بار قدرے غصے سے کہا! میں سحر کی بات کررہا ہوں۔ اور پھر اس نے ساری بات آصف کو بتا دی۔
اچھا تو یہ بات ہے! پہلے بتانا تھا! آصف نے سوچتے ہوئے کہا۔
پہلے بھی بتایا تھا ،لیکن تمہاری سمجھ میں بات ذرا دیر سے آتی ہے۔ اب ایک کام کرو۔۔۔۔۔۔
حکم جناب, آصف نے اپنی عادت کے مطابق سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
تم فی الحال اپنے کسی اور دوست کے پاس چلے جاؤ ۔میں سحر کو تمہاری موجودگی میں یہاں نہیں لانا چاہتا۔ اسے اچھا نہیں لگے گا۔ وہ پہلے ہی بہت گھبرائی ہوی ہے۔
بات تو ٹھیک ہے تمہاری، لیکن یہ گھر تو اس کے ڈرائیور نے دیکھا ہوا ہے! اس دن تمہیں چھوڑنے آیا تھا نا وہ گاڑی پر؟ آصف نے اُسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔
مجھے یاد ہے! اب اتنی رات کو میں اسے کہاں لے کر جاؤں۔ رات کی ہی تو بات ہے ویسے بھی جب تک شہباز کو پتہ چلے گا تو صبح ہو چکی ہوگی ۔۔۔اور صبح ہوتے ہی سحر کو یہاں سے لے جاؤں گا! عامر نے اُسے اپنا پلان بتاتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے میں عمران کی طرف چلتا ہوں ۔۔۔اور کوئی پریشانی ہو تو مجھے بس ایک فون کردینا ۔۔۔بندہ حاضر ہو جائے گا۔ آصف نے قمیض کے بٹن بند کرتے ہوئے کہا۔
شکریہ , تم نے ہمیشہ برے وقت میں میرا ساتھ دیا ہے۔ میں کبھی نہیں بھولوں گا تمہارے احسانوں کو عامر نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
مجھے لگتا ہے تمہیں دوسرے کام کرنے سے پہلے نہا لینا چاہیے۔ عجیب سی بدبو آرہی ہے۔ آصف نے اس سے الگ ہوتے ہوئے کہا وہ ہمیشہ اسی طرح مذاق کرتا تھا۔ خاص طور پر جب عامر پریشان ہوتا تھا اور پھر وہ خدا حافظ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا جبکہ عامر مسکراتے ہوئے اسے دیکھتا رہا اور پھر جیسے کچھ یاد آگیا ہو اس نے جلدی سے سحر کا نمبر ملایا۔
ہاں عامر, کیا سوچا تم نے , سحر نے کال اٹینڈ کرتے ہی سوال کیا۔
میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن میں تمہارے گھر کے پاس نہیں آؤں گا بہتر ہے کہ تم اکیلی وہاں سے نکلو اور پھر 3 تلوار چوک پر میں موجود ہوں گا۔۔۔ اس طرح اگر کوئی دیکھ بھی لیتا ہے تو زیادہ خطرے کی بات نہیں ہوگی۔ عامر نے اسے اپنا پلان بتایا۔
وہاں سے گھر کیسے جائیں گے؟ اس وقت کوئی ٹیکسی بھی نہیں ملے گی؟
اس کی فکر مت کرو میرے پاس آصف کی بائیک ہے۔ سحر دھیان سے پلیز اور جب وہاں پہنچ جاؤ تو مجھے فون کر دینا میں 5 منٹ کے اندر اندر تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا کیونکہ پہلے سے وہاں کھڑا ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ عامر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا لیکن اندر سے وہ خود بھی بہت گھبرایا ہوا تھا کیونکہ اُسے اندازہ تھا کہ وہ دونوں کیا قدم اٹھانے جارہے ہیں اور اس کا ان کی زندگی پر اور پڑھائی پر کیا اثر ہوگا۔
ٹھیک ہے عامر , میں 2 بجے تک وہاں پہنچ جاؤں گی۔ میرا انتظار کرنا,!
وہ تو ہمیشہ ہ کیا ہے۔ عامر نے دھیرے سے جواب دیا ۔۔۔اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔
صبح ہوتے ہی ہم اس گھر سے چلے جائیں گے ۔۔۔ جو وقت تمہارے گھر والوں نے تمہارے اور شہباز کے نکاح کیلئے مقرر کیا ہے، اسی وقت پر ہم نکا ح کرلیں گے اور پھر ہمیں ایک دوسرے کو کھونے کا ڈر کبھی نہیں رہے گا۔ عامر نے اس کو خاموش پا کر اپنی بات جاری رکھی۔
اچھا میں اب فون رکھتی ہوں۔ تم دو بجے وہاں پہنج جانا میں انتظار کروں گی۔سحر نے اسکی بات سن کر جلدی سے خدا حافظ کہا۔
خدا حافظ, عامر نے حسرت بھرے انداز میں کہا اور دوسری جانب سے لائن منقطع ہوگئی۔
ہوگئی بات اس سے ؟ رخشندہ بھابھی نے سحر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
بات تو کرلی ہے بھابھی !لیکن میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔۔۔ پتہ نہیں یہ سب ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔
پریشانی سے مسئلے حل ہونے ہوتے تو اب تک میری ساری پریشانیاں ختم ہو چکی ہوتیں۔ خود سوچو اگر تم نے ہمت نہ کی، تو جو کل ہوگا تمہارے ساتھ کیا وہ ٹھیک ہوگا؟ بھابھی نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔ اتنا زیادہ سوچوگی تو بکھر جاؤ گی۔
مجھے اپنی فکر نہیں ہے بھابھی ۔۔۔لیکن میرے بعد جو امی اور آپ کے ساتھ ہو گا، وہ سوچ کر میرا دل دھڑکنا بھول جاتا ہے۔ میرے قدم رکنے لگتے ہیں۔
کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ وہی جو روز ہوتا ہے, لیکن ذرا سوچو کم سے کم تمہیں تو اس ماحول سے نجات مل جائے گی۔ بھابھی نے اپنے ہاتھ میں موجود لکڑی کا خوبصورت جیولری باکس کھولتے ہوئے کہا۔
یہ میرے کچھ زیورات ہیں۔۔۔ تمہیں اس لیے دے رہی ہوں کہ تمہیں اس کی ضرورت پڑے گی۔
نہیں بھابھی, مجھے زیور پسند نہیں ہیں ۔۔۔آپ تو جانتی ہیں کہ مجھ سے یہ بھاری بھاری زیور نہیں پہنے جاتے۔ آپ کے زیور ہیں اور آپ ہی انہیں پہنیں۔ سحر نے فوراً منع کردیا۔
مجھے پتہ ہے کہ تمہیں پسندنہیں ہیں۔ میں پہننے کیلئے نہیں دے رہی ۔۔۔ میں اس لیے دے رہی ہوں تاکہ ضرورت کے وقت تمہارے کام آسکیں۔ ویسے بھی میں نے کبھی پہنے نہیں ہیں۔ شادی کے بعد جوں کے توں پڑے ہیں۔ رخشندہ نے اس کے بیڈ پر باکس رکھ دیا۔
پھر بھی بھابھی، میں آپ سے یہ زیور نہیں لے سکتی۔ میرے لیے پہلے ہی آپ نے اتنا بڑا خطرہ مول لیا ہے۔۔۔ میرے لیے وہی کافی ہے۔ آپ پہنا کریں، بہت اچھے لگتے ہیں آپ پر۔
زیور تو عورت اپنے شوہر کیلئے پہنتی ہے ۔۔۔عورت کا سجنا، سنورنا تو اپنے شوہر کیلئے ہوتا ہے۔ میں ان زیوروں کو کسے پہن کر دکھاؤں گی۔ سج سنور کر اگر انارکلی بن بھی جاؤں تو ناچنا تو اکبر کے سامنے ہی ہے۔ اس نے کڑوے اور مایوس لہجے میں دھیرے سے کہا۔ اچھا اب باتوں میں وقت ضائع مت کرو ۔میں نے امی اور عادل کو چائے پلا دی ہے اور وہ گہری نیند میں ہیں ۔اپنا ضروری سامان ساتھ رکھ لینا۔ رخشندہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ جب تیار ہو جاؤ جانے کیلئے تو نیچے آجانا۔ اب دیر مت کرنا سحر۔۔۔ ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ دروازے سے نکلتے ہوئے انہوں نے سحر کو تلقین کی جبکہ وہ بے جان لاش کی طرح کھڑی رہی۔ ایک پتھر کی مورتی کی طرح خوبصورت مگر بے جان۔
محبت انسان کو کتنا خود غرض بنا دیتی ہے۔ ایک پل میں بننے والا یہ رشتہ سبھی رشتوں پر غالب آجاتا ہے۔ وہ تمام رشتے جو دنیا میں آنکھ کھولتے ہی دامن میں گرتے ہیں۔۔۔ محبت کے آگے وہی رشتے بے معنی لگتے ہیں۔ برسوں کی کمائی ہوئی عزت، دولت اور سب سے بڑھ کر ماں باپ کی برسوں کی تربیت بھی پھیکی پڑ جاتی ہے۔ کیا واقعی مجھے محبت نے خود غرض بنا دیا ہے۔ ؟؟؟ نہیں یہ میں نہیں ہوں ؟ یہ تو محبت ہے جو ایسا کررہی ہے۔۔۔ ورنہ میں نے تو ایسا راستہ کبھی نہیں سوچا تھا اپنی منزل کے لئے۔خود غرض میں نہیں ،خود غرض تو محبت ہے، جو مجھے میری حد سے گرا رہی ہے۔ مجھے بغاوت پر اکسا رہی ہے۔۔۔ مجھے وہ تمام رشتے چھوڑنے کو کہہ رہی ہے جو برسوں سے میرے۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں !وہ رشتے تو نہیں ہو سکتے جو مرضی سے جینے کا حق چھین لیں۔۔۔ وہ رشتے کیسے ہوسکتے ہیں؟ وہ رشتے کس طرح ہوسکتے ہیں، جو اپنی خواہشوں کے غلام بن کر اپنوں پر ہی ظلم ڈھائیں؟ محبت خود غرض نہیں ہے۔۔۔ رشتے خود غرض ہیں۔ اس کی سوچ الجھ رہی تھی۔ وہ وہیں کھڑی کھڑی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کررہی تھی۔ رشتے بلاشبہ محبت سے زیادہ اہم ہوتے ہوں گے،مگر جو رشتے اس کے پاس تھے وہ محبت قربان کیے جاسکتے تھے۔ اس نے سوچا اور پھر تیزی کی ایک لہری اس میں سما گئی۔ جلدی جلدی اس نے تمام ضروری چیزیں اپنے یونیورسٹی بیگ میں رکھیں ،جن میں موبائل فون، بھابھی کے زیورات اور دو سوٹ تھے۔ بیگ بند کرکے اس نے کمرے کی کھڑکیاں بند کیں۔ کمرے سے نکلتے وقت اسے کچھ یاد آیا ۔ اس نے پھر سے لائٹ آن کی ۔ ناول تو میرا عامر کے پاس ہی ہے۔ اس نے سوچااور دوبارہ لائٹ بجھا کر دھیمے دھیمے انداز میں سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آگئی۔
دیکھ لینا کچھ رہ نہ جائے۔ رخشندہ نے اسے آتے دیکھا تو اپنا منہ پھیر لیا۔
آپ رو رہی ہیں؟ سحر نے اس کے منہ پھیرنے سے پہلے اس کے آنسو دیکھ لیے تھے۔
رو نہیں رہی۔ اداس ہو رہی ہوں۔ رخشندہ نے مڑ کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ اس دوران وہ اپنے آنسو پونچھ چکی تھی۔
مجھے ہمت دینے کے بعد آپ اگر ایسا کریں گی، تو میں نہیں جا پاؤں گی۔۔۔پلیز آپ اداس مت ہوں۔ اس نے بھابھی کو گلے لگا لیا۔ اس کی آواز رندھ گئی تھی۔ اندر سے جیسے ایک طوفان برپا تھا، جو آنکھوں کے راستے اس کے گالوں تک پہنچ رہا تھا۔
اپنا خیال رکھنا، اور حریم کا بھی۔۔۔ امی کو سمجھانے کی کوشش کرنا ،مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے معاف کردیں گی۔ ہو سکتا ہے کچھ مہینوں کے بعد میں پاکستان سے باہر چلی جاؤں۔ کوشش کروں گی کہ آپ سے کسی طرح مل کر جاؤں۔ آپ بہت بہادر ہیں بھابھی۔ کتنی آسانی سے سب کچھ برداشت کرجاتی ہیں۔ اپنی اسی بہادری کا فائدہ اٹھائیں اور حریم کو ایسی زندگی دیں جس کی خواہش آپ نے اپنے لیے کی تھی۔ عادل بھائی کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنے کی کوشش کریں۔ایک نہ ایک دن آپ کو آپ کے صبر وہمت کا پھل ضرور ملے گا۔ اس نے بھابھی کو خود سے الگ کیا اور اپنے دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ دئیے۔ ہمیشہ سنا تھا کہ بھابھیاں کسی کی سگی نہیں ہوتیں، لیکن آپ کے اس گھر میں آنے سے میرا نظریہ بدل گیا ہے۔ ہر رشتے میں محبت ہوتی ہے ۔۔۔بس پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عیب نکالنے کی نظر سے اگر ہیرے کو بھی دیکھا جائے تو وہ بھی اپنی چمک کھو دیتا ہے۔
بس بس ٹھیک ہے۔۔۔ کچھ ڈائیلاگ عامر کیلئے بھی بچا کر رکھ لو۔ بہادری تو اس نے بھی دکھائی ہے۔ بھابھی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بس ایسے ہی رہیں ہر وقت۔ ڈپریشن سے کچھ نہیں بدلتا ،نہ ہی پریشانی ختم ہوتی ہے ۔۔۔البتہ خوش رہنے سے بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
چلو اب تمہیں دروازے تک چھوڑ دیتی ہوں۔ اور پھر وہ دونوں گیٹ پر پہنچ گئیں۔
خیال سے جانا سحر! اس وقت شائد ہی باہر کوئی ہو، لیکن پھر بھی دھیان رکھنا ۔۔۔یہاں سے نکلتے ہی ساتھ والی گلی میں چلی جانا۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ صوفی تمہیں دیکھ لے وہ رات کو چوکیداری کیلئے حویلی کے باہر رہتا ہے ۔
آپ فکر مت کریں بھابھی۔ میں چچا کے گھر کے آگے سے نہیں گزروں گی۔ اس نے پھر سے بھابھی کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
اب جاؤ سحر۔ تمہیں پہنچنے میں کافی وقت لگے گا ،اور اس وقت نہ کوئی سواری ملے گی۔ بھابھی نے اسے یاد دلایا۔
خدا حافظ بھابھی۔ خدا آپ کو خوش رکھے اور بھائی کو سیدھا رستہ دکھائے۔ اس نے سر پر چادر اوڑھتے ہوئے کہا اور گیٹ سے باہر آگئی۔
بھابھی نے بے بسی اور خوشی کے ملے جلے جذبے سے اسے جاتے ہوئے دیکھا ۔پھر کچھ ہی لمحوں بعد سحر گلیوں کے اندھیروں میں گم ہوگئی۔ رخشندہ نے دروازہ بند کیا اور اندر چلی گئی۔ وہ خود کو بہت ہلکا محسوس کررہی تھی، لیکن اداسی اس کے چہرے پر عیاں تھی۔ سحر ہمیشہ اس کا دفاع کرتی آئی تھی۔ بے شک وہ ناکام ہوتی رہی لیکن کوشش اس نے ہمیشہ کی تھی۔ میں تو اپنے پسند کے شخص سے زندگی نہیں گزار پائی سحر ۔۔۔لیکن تم اس قابل ہو کہ ایسا کرو۔ اس نے سوچا اور اوپر سحر کے کمرے پر ایک نگاہ ڈالی ۔پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلی گئی، جہاں عادل اور حریم نیند کی گہری وادی میں گم تھے۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
وہ زندگی میں پہلی بار اتنا پیدل چلی تھی۔ اس کے قدم جواب دے چکے تھے، لیکن اسے رکنا نہیں تھا۔۔۔ اُسے چلتے رہنا تھا۔ محبت میں اگر ایک بار قدم اٹھا لیے جائیں تو پھر رکنا مممکن نہیں ہوتا۔ محبت سائے کی طرح ہوتی ہے، جو اپنے پیچھے چلنے والوں کو صرف چلنا سکھاتی ہے۔۔۔خود ہمیشہ چار قدم آگے ہی رہتی ہے۔۔۔ شائد اسی لیے وہ پرکشش اور انمول لگتی ہے ۔محبت اگر ملنے لگ جائے تو کون اس کے پیچھے بھاگے گا۔ بالکل خوابوں کی طرح ۔۔۔جب تک پورے نہیں ہو جاتے، تب تک ہی حسین لگتے ہیں۔
اسی سوچ میں گم بالآخر وہ اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ ہی گئی تھی۔ ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ رات کے دو بجے کراچی اتنا سنسان نہیں ہوا کرتا تھا، لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ملک کے حالات کے ساتھ ساتھ اس شہر کے کچھ علاقے بھی بدل گئے تھے , نہ وہ رونقیں رہیں تھیں اور نہ وہ گہما گہمی۔
اس نے جلدی سے بیگ میں سے اپنا فون نکالا اور عامر کو کال ملائی۔ اسے جلد سے جلد وہاں سے نکلنا تھا۔اس کی پیشانی پسینے سے تر ہوچکی تھی۔
’’آپ کے مطلوبہ نمبر سے اس وقت جواب موصول نہیں ہورہا، برائے مہربانی کچھ دیر بعد کوشش کریں‘‘۔ اس کا دل پوری رفتار سے دھڑک رہا تھا۔ اس کے ذہن میں صرف شہباز کی شکل گھوم رہی تھی۔ وہ جلد سے جلد اس جگہ سے دور جانا چاہتی تھی جہاں اسے کسی کا خوف نہ ہو۔ اس نے آس پاس نگاہ دوڑائی مگر عامر اسے کہیں دکھائی نہ دیا۔
ممکن ہے موٹرسائیکل پر ہو اسی وجہ سے کال نہ مل رہی ہو۔ اس نے خود کو تسلی دی اور پھر ایک بند ہوٹل کے سامنے پڑے ہوئے بینچ پر بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد اس نے دوبارہ کال ملائی ،لیکن پھر وہی جواب ملا۔
خدا خیر کرے۔۔۔ اس وقت تک تو عامر کو پہنچ جانا چاہیے تھا۔ کہیں وہ بائیک سے۔۔۔ نہیں نہیں ,اس نے اپنا سر جھٹک دیا۔ اس کے ذہن میں وسوسے پوری رفتار کے ساتھ گھوم رہے تھے، اور گزرتے ہوئے ایک ایک لمحے کے ساتھ ان کی رفتار میں اضافہ ہو رہا تھا۔
دو بج کر 35 منٹ ہو چکے تھے۔ اس کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا۔ بار بار کال ملانے کے باوجود عامر کا نمبر نہیں مل رہا تھا۔ پتہ نہیں وہ کہاں ہوگا اس وقت ۔میں تو اس کے گھر کا ایڈریس بھی نہیں جانتی۔
وقت کا گزرنا اس کے حق میں نہیں تھا ۔۔۔لیکن وہ گزر رہا تھا۔ نئے نئے خدشے لہر بن کر اس کے پورے وجود میں پھیلتے جا رہے تھے۔ اس نے انگلی میں موجود عامر کی دی ہوئی انگوٹھی کو دیکھتے ہوئے سوچا، کہیں وہ میرے صبر کا امتحان تو نہیں لے رہا۔ یہیں کہیں آس پاس موجود مجھے دیکھ رہا ہو گا۔ میرے دیوانے پن کو دیکھ کر رورہا ہو گا۔ میری محبت کو دیکھ کر میرے سامنے آنے سے جھجھک رہا ہوگا۔ دل ہی دل میں رشک کررہا ہوگا۔ اس کا معصوم چہرہ ۔۔۔محبت کے نشے میں چور آنکھیں۔۔۔ چاہے جانے کے غرور اسے اٹھی ہوئی ناک۔۔۔ماتھے پر بے یقینی کے بل، اس کی پرکشش شخصیت میں چار چاند لگا رہے ہوں گے۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ سحر تم باتوں باتوں میں ایک دن مجھے کھو دو گی۔ آج اس کا یہ خدشہ دور ہو جائے گا ۔میرے وہ وعدے اور دعوے اس کے ذہن میں پرانی فلم کی طرح چل رہے ہوں گے۔ اسے آج فخر ہورہا گا اپنی محبت پر جو تمام زنجیروں کو توڑ کر اس کے قدموں میں چلی آئی ہے۔
اس کے پاس الفاظ نہیں ہوں گے۔ وہ نظریں چراتے ہوئے کہے گا سحر! تم نے میرے خدشوں کو ہرا دیا۔ تمہاری محبت جیت گئی ۔۔۔تمام عمر ہم دونوں مل کر اس جیت کا جشن منائیں گے۔ دنیا سے بے خبر۔۔۔ اپنی دنیا میں گم ۔۔۔محبت کا عروج دیکھیں گے۔ کتنا اچھا لگے گا۔۔۔ اس کے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر ۔۔۔شہر کی ویران سڑکوں پر اپنے من پسند شخص کے پہلو میں ۔۔۔بالکل کسی فلم کے منظر کی طرح ،مگر حقیقت میں,! اس کی حسین سوچوں کا بت چور چور ہوا جب اس کے موبائل پر میسج ٹون بجی۔
اس کی آنکھیں چمک اٹھیں, دل تیزی سے دھڑکا۔۔۔ سانس تھم گئی۔ اس نے ان باکس کھولا۔
’’ تم گھر لوٹ جاؤ سحر, ایم سوری‘‘ میں نہیں آسکتا۔
گھر لوٹ جاؤں, اس نے زیر لب دہرایا اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔
’’نہیں عامر میں تمہارا انتظار کروں گی۔ میں اب گھر واپس نہیں جاسکتی۔ کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ۔ میں عمبرین کے گھر چلی جاؤں گی، تم وہاں سے مجھے پک کر لینا‘‘۔ اس نے ٹائپ کیا اور سینڈ کردیا۔ اس نے ٹائم دیکھا تو پورے تین بج رہے تھے۔ چند لمحوں بعد دوبارہ عامر کا جواب آیا۔
’’میں تم سے شادی نہیں کرسکتا سحر, وقت ضائع مت کرو اور گھر چلی جاؤ، ابھی کچھ نہیں بگڑا ۔۔۔اگر دیر کرو گی تو کہیں کی نہیں رہو گی‘‘
’’میں تمہاری رضا مندی سے گھر سے آئی ہوں۔۔۔ اب واپس نہیں جاسکتی۔ خدا کیلئے تم مجھے بات بتاؤ جو تمہیں روک رہی ہے یہاں آنے سے‘‘ اس نے دوبارہ ایس ایم ایس کیا۔
اُسے اپنے ہاتھ پاؤں سن ہوتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ اس کا زرد ہوتا ہوا بے جان چہرہ اس کی اندرونی کیفیت کو ظاہر کررہا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی برف کی طرح جم چکی تھی۔
’’میں تم سے محبت نہیں کرتا سحر! مجھے معاف کرنا میں نے تمہارا وقت ائع کیا۔ جو لڑکی اتنی خود غرض ہو کہ محبت کی خاطر اپنے سارے رشتے چھوڑ دے، وہ کل کو مجھے بھی چھوڑ سکتی ہے۔ مجھ سے بھی دھوکہ کر سکتی ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ گھر واپس چلی جاؤ۔۔۔ میں اب تم سے کبھی نہیں ملوں گا۔ اور نہ ہی اس سے آگے تمہیں کسی سوال کا جواب دوں گا۔ خدا حافظ‘‘
اُسے یقین نہیں ہورہا تھا۔ یہ سب عامر کا مجھے تنگ کرنے کا پلان ہے۔ وہ نہ آتاتو میں مان بھی لیتی۔۔۔ لیکن وہ مجھے کبھی بھی خود غرض نہیں کہہ سکتا۔ وہ ضرور یہیں آس پاس کھڑا مسکرا رہا ہوگا۔ آجائے ایک بار سامنے ,میں بھی مذاق مذاق میں اس کے ساتھ جانے سے انکار کردوں گی۔ پھر دیکھوں گی اس کی آنکھیں کیسے سرخ نہیں ہوتیں۔
سحرنے اس بار ایس ایم ایس کی بجائے کال ملائی، لیکن اس کا نمبر بند جارہا تھا۔
تم آؤ تو سہی عامر! چھوڑوں گی نہیں تمہیں۔ جتنا وقت مجھ کو یہاں انتظار کرایا ہے۔۔۔ اس کا گن گن کر حساب لوں گی۔ پھر اس کے ذہن میں کوئی ترکیب آئی اور وہ وہاں سے اٹھ گئی۔
اب دیکھتی ہوں کہ تم کب تک چھپتے ہو اس نے ایک بار پھر ٹیکسٹ لکھا۔
’’میں واپس جارہی ہوں اور پھر دوبارہ کبھی تم سے نہیں ملوں گی‘‘
اس نے آس پاس دیکھتے ہوئے گھر کی طرف قدم بڑھا دئیے۔ اُس کا خیال تھا کہ اسے واپس جاتا دیکھ کر وہ تڑپ کر اس کے سامنے آجائے گا اور کان پکڑ کر معافی مانگے گا ۔۔۔لیکن جوں جوں اس کے قدم گھر کی طرف بڑھتے گئے، اس کی اُمید کم ہوتی گئی۔ اس کے وہم ،یقین میں بدلتے گئے۔ وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی رہی کہ شائد عامر اس کے پیچھے آرہا ہو۔ لیکن دور دور تک اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ اس نے فون نکالا لیکن کوئی میسج نہیں ملا ۔۔۔کال ملانے پر نمبر بندتھا۔ صبح کے ساڑھے چار بج چکے تھے۔
ایکدم اُس نے خود پر روشنی محسوس کی۔ مڑ کر دیکھا تو سنگل لائٹ والی کوئی گاڑی اس کی طرف آرہی تھی۔ جیسے کوئی موٹرسائیکل ہو۔ اس کی آنکھیں امید سے بھر آئی تھیں۔ آخر میرا طریقہ کامیاب ہو ہی گیا۔ وہ مجھے واپس جاتا ہوا کیسے دیکھ سکتا تھا۔
ہستہ آہستہ وہ روشنی اس کے قریب آکر ٹھہر گئی۔
کہاں جانا ہے بی بی جی آپ کو؟ رکشے والے نے اس کے پاس رکشہ روکتے ہوئے پوچھا تو اس کی آخری اُمید نے بھی دم توڑ دیا تھا۔
گھر جانا ہے مجھے۔ اپنے گھر، اپنوں کے پاس,اس نے لرزتے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ اسکی پتھرائی آنکھیں پگھل پڑی تھیں۔
وہ تو ٹھیک ہے بی بی جی ,مگر آپ کا گھر ہے کہاں؟
ڈیفینس، فیز 6 ۔اس نے جواب دیا اور پیچھے رکشے میں بیٹھ گئی ۔ ڈرائیور نے رکشہ سٹارٹ کرلیاتھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ،لیکن اسے کوئی روشنی دکھائی نہیں دی۔ اب تو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ جن روشنیوں کے خواب اس نے دیکھے تھے، وہ تو کب کی گل ہو چکیں تھیں۔ محبت کا محل ریزہ ریزہ ہوچکا تھا۔ اُسے پتہ نہیں زندگی کے اور کتنے طوفانوں میں سے گزرنا تھا۔۔۔ لیکن اب اسے کوئی مشکل نہیں تھی۔ وہ ہنس کر ان طوفانوں میں سے گزر جائے گی۔ وہ تو اندر سے مر چکی تھی۔۔۔ لاشیں طوفانوں سے نہیں ڈرا کرتیں ۔کچھ ہی گھنٹوں پہلے جسے رستے سے وہ اپنی منزل کو پانے کیلئے نکلی تھی، اب اسی رستے سے سب کچھ کھو کر واپس جارہی تھی۔ کچھ بھی تو نہیں تھا اس کے پاس ایک ماں کا رشتہ تھا اس کے پاس، اس نے تو شائد وہ بھی کھو دیا تھا۔
رکشے کی رفتار کم ہونے لگی ،تو وہ اپنے ہوش میں واپس آگئی۔
یہ لیں بی بی جی آگیا فیز6۔ڈرائیور نے رکشہ روکتے ہوئے کہا۔
وہ خاموشی سے اتر گئی۔
100 روپے , رکشے والے نے کرایہ طلب کیا۔
اس کے پاس پیسے کہاں تھے، لیکن زیورات تھے اس کے پاس۔ اُس کی نگاہ اپنے ہاتھ میں سجی اس انگوٹھی پر پڑی، جو عامر نے اسے پرپوز کرتے ہوئے پہنائی تھی۔
میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔۔۔ آپ یہ انگوٹھی رکھ لیں۔ اس نے بے دلی سے انگوٹھی اتارتے ہوئے کہا۔
لیکن بی بی جی یہ تو بہت مہنگی لگ رہی ہے۔ آپ رہنے دیں۔ اس نے رکشہ سٹارٹ کرتے ہوئے جواب دیا۔
کوئی بات نہیں, آپ یہ رکھیں ۔اس نے انگوٹھی اس کی جھولی میں پھینک دی۔
مہنگی تو بہت ہے یہ ۔۔۔اس کے آگے نہ میرے کسی رشتے کی اہمیت ہے ۔۔۔نہ کسی جذبے کی ۔سب کچھ کھو دیا میں نے اس کی اہمیت میں۔ اس نے سوچا
رکشے والا سلام کرتا ہوا وہاں سے چلا گیاتھا۔ صبح صبح ہی اتنی قیمتی دیہاڑی لگ جانے پر وہ بہت خوش تھا۔ سحر نے اس بار مڑ کر نہیں دیکھا۔ انسان جب نا امید ہو جاتا ہے تو وہ مڑ کر نہیں دیکھا کرتا ۔۔۔وہ بس ہاتھ باندھے وقت کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ بنا کچھ سوچے سمجھے۔۔۔ ایک غلام کی طرح ۔۔۔خواہشوں کی ایک زندہ لاش بن کر۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
سحر اٹھ جاؤ بیٹا! دس بج رہے ہیں ,کچھ ہی دیر میں تمہارے چچا اور شہباز پہنچ جائیں گے۔ امی نے کھڑکی سے پردوں کو ہٹاتے ہوئے اسے آواز دی۔
بیٹا اب اٹھ بھی جاؤ, کیا سوچیں گے وہ کہ ہم نکاح کیلئے آئے ہیں اور لڑکی ابھی تک سو رہی ہے ۔۔۔اپنے چچا کو اچھی طرح جانتی ہو کہ کتنے غصے والے ہیں۔ امی نے اس پر سے کمبل اتارتے ہوئے کہا۔ اس دوران ان کی نگاہ فرش پر بکھرے کپڑوں اور زیورات پر پڑی۔
یہ تو رخشندہ کے زیور ہیں ،یہاں کیا کررہیں ہیں؟ اور کپڑے کیوں بکھرے پڑے ہیں؟ امی نے فرش سے زیور اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
سحر نے آنکھیں کھول دیں۔ چہرے پر تھکاوٹ کے آثار تھے۔ آنکھیں اپنی چمک کھو چکی تھیں ۔جیسے رات بھر اس نے کوئی برا خواب دیکھا ہو۔
خواب ہی تو دیکھ رہی تھی اب تک ,صبح تو اب ہوئی ہے۔۔۔آنکھیں تو اب کھلی ہیں۔ خواب کتنے ہی حسین کیوں نہ ہوں ،لیکن نصیب سے نہیں جیت سکتے۔ اس نے سوچا۔
بھابھی کے ہی زیورات ہیں۔ مجھے نکاح کے وقت پہننے کیلئے دئیے تھے رات کو انہوں نے۔ اس نے چپل پہنتے ہوئے بے رخی سے جواب دیا۔ وہ بنا کوئی مزید بات کہے واش روم میں چلی گئی۔
جبکہ امی ابھی بھی ان کپڑوں اور زیورات کے بکھرے ہونے سے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کررہی تھیں۔
اچھا بیٹا جب فریش ہو جاؤ تو نیچے آجانا ۔میں جا کر تیرے بھائی اور بھابھی کو جگا دوں ۔۔۔ابھی تک سو رہے ہیں۔لگتا ہے پورے ہفتے کی نیند آج کی پوری کرنی ہو۔ نیند تو مجھے بھی بہت آئی تھی رات کو اسی لیے میری صبح کی نماز رہ گئی۔ انہوں نے بیڈ شیٹ درست کرتے ہوئے کہا۔
اسی دوران سحر واش روم سے باہر آگئی۔ اس نے اپنے بیگ سے ٹوتھ برش نکالا۔ امی حیران تھیں کہ ٹوتھ برش تو واش روم میں ہوتا ہے، تو پھر سحر نے بیگ میں سے کیوں نکالا؟؟
امی آپ نماز کس لیے پڑھتی ہیں؟ اس نے نظریں ملائیں بغیر سوال کیا۔
نماز کس لیے پڑھتے ہیں بیٹا؟ خدا کو راضی کرنے کے لیے ایک کامیاب زندگی گزارنے کیلئے خدا کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ انسان بھٹکتا بھٹکتا اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ امی نے اس کے کپڑے سمیٹتے ہوئے کہا۔
آپ ہمیشہ نماز پڑھتی ہیں اس کے باوجود جو زندگی آپ نے گزاری ہے کیا آپ خوش ہیں اپنی عبادتوں سے؟ اس بار اس نے امی کے چہرے پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
ضروری نہیں ہے بیٹا کہ انسان جو چاہے اسے عبادت کرنے سے وہ مل جائے۔۔۔ لیکن مطمئن وہ ضرور رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے جس چیز کی انسان خواہش کررہا ہو وہ چیز اس کے حق میں اچھی نہ ہو۔ خدا ہر بات سے واقف ہے بیٹا۔۔۔ وہ بندے پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔ انسان خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے۔ نمازوں کا صلہ دنیا میں نہ سہی، آخرت میں ضرورملے گا۔ یہی نماز ہی انسان کا دفاع کرے گی۔
امی میں نماز پڑھ لوں ؟ اس نے کھوئی ہوئی آواز میں پوچھا۔
اس وقت بیٹا؟ امی نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ ابھی تو کسی نماز کا وقت نہیں ہے۔
اچھا,! اس نے دھیرے سے کہا اور واپس واش روم میں چلی گئی۔
اسے کیا ہوا ہے؟ اس سے پہلے تو اس نے کبھی اس طرح بات نہیں کی تھی۔انہوں نے سوچا اورنیچے چلی گئیں۔ رخشندہ پہلے سے ہی وہاں موجود تھی۔ وہ حریم کیلئے کچن میں دودھ گرم کررہی تھی, امی کو نیچے آتا دیکھ کر اس کا دل بری طرح دھڑکا, وہ جانتی تھی کہ امی اس کے پاس آکر کیا کہیں گی۔۔۔ اور پھر پورے گھر میں ہنگامہ برپا ہو جائے گا کہ سحر اپنے کمرے میں موجود نہیں ہے ۔لیکن تب تک وہ اپنی منزل تک پہنچ چکی ہوگی۔
رخشندہ, امی نے کچن میں داخل ہوتے ہی اُسے پکارا۔
جی امی, اس نے کانپتے ہوئیجواب دیا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کا کلیجہ حلق کو چھو رہا ہے۔
بیٹا سب کے ناشتہ بنا لینا۔ میں نے حاجرہ کو فون کردیا ہے، وہ دوپہر تک پہنچ جائے گی۔
عادل اٹھ گیا ہے یا ابھی تک سو رہا ہے؟ امی نے پانی کا گلاس بھرتے ہوئے کہا۔
جی امی اٹھ گئے ہیں عادل! میں حریم کو دودھ پلادوں تو پھر ناشتہ بناتی ہوں۔ اس نے نظریں چرائیں ،جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو، لیکن امی کا نرم رویہ دیکھ کر حیرت بھی ہورہی تھی اسے۔
سحر کیلئے آلو کا پراٹھا بنادینا ۔۔۔بہت شوق سے کھاتی ہے۔ آج آخری دن ہے اس کا اس گھر میں پھر تو بس مہمان بن کر ہی آیا کرے گی وہ,
رخشندہ کو امی کا مطمئن چہرہ دیکھ کر حیرانی ہورہی تھی۔ کیا انہیں ابھی سحر کے جانے کا علم نہیں ہوا ۔اس نے دل سے پوچھا۔
سحر ہے کہاں امی؟ صبح سے نظر نہیں آرہی ۔اس نے بات کو پرکھنے کی کوشش کی۔
واش روم میں ہے۔۔۔ ابھی نیچے آجائے گی۔۔۔ اور ہاں یاد آیا !تمہارے زیور کہاں ہیں بیٹا؟ امی کے اس سوال پر اس کا چہرہ زرد پڑ گیا۔
وہ۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں ہوں گے۔۔۔مم میرا مطلب میری الماری میں ہوں گے۔ اس نے کانپتے ہوئے جواب دیا۔
کیا مطلب ؟ وہ اگر اپنے کمرے میں ہیں ،توپھر سحر کو کہاں سے ملے تمہارے زیور؟؟ اُسے یقین ہو چکا تھا کہ امی کو اس پر شک ہو گیا ہے کہ سحر کو اس نے گھر سے بھگایا تھا۔ اور اپنے زیور بھی اسے دے دئیے تھے۔ دودھ ابل کر آپے سے باہر ہورہا تھا۔
امی مجھے معاف کردیں۔ میں نے جو بھی کیا وہ سحر کی بھلائی کیلئے کیا، ورنہ اس کی زندگی برباد ہوجاتی۔ رخشندہ نے روتے ہوئے کہا ۔پلیز آپ عادل سے ذکر مت کیجےئے گا اس بات کا۔۔۔ ورنہ وہ مجھے اور حریم کو جان سے مار دے گا, اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے فریاد کی ۔لیکن امی حیرت کا بت بنے اسے دیکھ رہی تھیں۔
کچھ نہیں کہے گا بیٹا, اگر تمہارے زیور اس کی بہن پہن لے گی ،تو اسے کیا اعتراض ہوگا۔ ویسے بھی مردوں کو اس بات سے کیا لینا دینا ۔۔۔مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ میری بیٹی نے میری لاج رکھ لی۔۔۔ میری بات مان کر،ہمارے فیصلے پر سرجھکا دیا۔
رخشندہ ان کی باتیں سن کر، پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھتی جارہی تھی، جبکہ دودھ اب کھوئے کے پراسس سے گزر رہا تھا۔
امی ٹھیک کہہ رہی ہیں بھابھی! میں شادی کے بعد آپ کے زیور آپ کو واپس کردوں گی۔ سحرنے کچن میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔خشندہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
سحر, تم تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں میں ابھی تک سو رہی تھی۔ بس کچھ دیر پہلے جاگی ہو ں۔سحر نے معنی خیز لہجے میں رخشندہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اس دوران گھر کی ڈور بیل بجی تو تینوں ہی حیران ہوگئیں۔
میں جا کر دیکھتی ہوں, امی نے کہا اور باہر دروازے کی جانب چلی گئیں اور پھر کچھ لمحوں بعد حاجرہ امی کے ساتھ کچن میں نمودار ہوئی۔
اسلام و علیکم, اس نے ادب سے سلام کیا۔
امی بتا رہی تھیں کہ تم دوپہر کو آؤگی؟ رخشندہ نے فیڈر میں دودھ ڈالتے ہوئے پوچھا۔
جی بی بی, ہمارے گھروں میں تو اس ٹیم دوپہر ہوتی ہے ۔ آپ کے گھروں میں لوگ ناشتہ کرتے ہیں اس ٹیم۔ اس نے عقلمند بنتے ہوئے جواب دیا اور کپڑوں کی گھٹڑی نیچے فرش پر پھینک دی۔
بی بی گھر میں سب خیر تو ہے نا؟؟ میرا مطلب ہے کہ سب کچھ گھر میں موجود تو ہے نا؟ زیور، روپیہ پیسہ! اس نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔تینوں ہی اسکی بات پر چونک اُٹھیں۔
بی بی جی, باہر دیوار کے ساتھ کسی نے اینٹیں اکٹھی کرکے رکھی ہوئی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ رات کو کسی نے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے۔ اس نے دھیمے اور رازدارانہ لہجے میں بتایا۔ بھابھی نے سحر کو نظریں چراتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ سمجھ گئیں تھیں کہ رات کو کون گھر میں داخل ہوا تھا۔ ان دونوں کی آنکھوں کی گفتگو امی نے بھی پڑھ لی تھی۔
ناشتے کے بعد وہ باہر لان میں چلی آئی تھی۔ رخشندہ بھی چائے کا کپ لیے اس کے پیچھے آگئی تھی۔
پلیز بھابھی مجھ سے کوئی سوال مت کرنا ۔اس نے گلاب کا پھول توڑتے ہوئے بھانپ لیا تھا کہ رخشندہ وہاں کیوں آئی تھی۔
کیوں نہ کروں میں سوال؟ کئے کرائے پر پانی پھیر دیا تم نے ,تم اتنی بزدل ہو گی سحر۔۔۔ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ انہوں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے جواب دیا۔ مگر وہ خاموش رہی اور اس کی نگاہیں اس گلاب کے پھول پر ٹکی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے چہرے کو پرسکون بنانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔
سحر! بہت پچھتاؤ گی۔ زندگی بار بار موقع نہیں دیتی خود کو بدلنے کا ۔مجھے تو ترس آرہا ہے بے چارے عامر پر۔۔۔ اگر اتنی ہمت نہیں تھی تو اُسے اُمید بھی نہ دلاتی, چپ چاپ شہباز بھائی سے شادی کیلئے مان جاتی۔۔۔ کم سے کم ان سب کی نظروں میں تو مزید برا نہ بنتی۔
سحرمسلسل خاموشی سے گلاب کے پھول کو دیکھے جارہی تھی ۔لیکن بھابھی کی باتوں کے کانٹے اس کے وجود کو اندر سے چھلنی کررہے تھے۔ ایک بار تو اس کا دل چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر بتائے کہ وہ بزدل نہیں ہے۔ اس نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا محبت کی خاطر ۔۔۔لیکن وہ محبت ہی بزدل تھی۔۔۔ اسے یہ قربانیاں کیسے راس آسکتی تھیں۔
سحر کوئی تو جواب دو ۔۔۔اپنے دفاع میں کچھ تو کہو! خاموشی تم پر نہیں جچتی,
رخشندہ نے بے چینی کے عالم میں پوچھا, وہ سحر سے جواب سننا چاہتی تھی۔
وہ کیا بتاتی کہ جس شخص کے ساتھ اس نے زندگی گزارنے کے خواب دیکھے تھے اسی نے اسے جیتے جی مار دیا تھا۔ وہ تو ہمیشہ فخر کرتی آئی تھی اپنی محبت پر۔ کس طرح بتا دیتی کہ وہ محبت تو پانی کا ایک بلبلہ تھی ،جو ذرا سی ہوا آنے پرغائب ہو گیا۔ وہ کیسے ذلیل کر سکتی تھی اپنی محبت کو,وہ اپنے ہی ہاتھوں، اپنے دعوؤں کو۔۔۔ اپنی انا کو دوسروں کے سامنے رسوا نہیں کرسکتی تھی۔ وہ خودساری عمر چاہے جیسے بھی گزاردیتی ،لیکن محبت کو باعزت رہنا تھا، عظیم رہناتھا، امر رہنا تھا۔ وہ ایک ایک کرکے پھول کی پتیوں کو زمین پر بکھیر رہی تھی۔
اسی دوران گاڑی کا ہارن اسے واپس لے آیا تھا خیالوں کی دنیا سے۔
مجھے لگتا ہے ابا اور شہباز آگئے ہیں۔ چلو اندر چلتے ہیں۔ وہ چپ چاپ بھابھی کے ساتھ اندر چلی گئی ۔ اس دوران حاجرہ نے گیٹ کھول دیا تھا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنا موبائل اٹھایا۔ ان باکس میں موجود عامر کے تمام مسیجز ڈیلیٹ کرنے کے بعد اس نے اس کا نمبر بھی ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ اس نے فون گیلری میں موجود عامر کی ساری تصویریں ختم کردی تھیں ۔لیکن آخری تصویر پر وہ ر ک گئی۔ عامر کا مسکراتا ہوا چہرہ جیسے اُسے ہی دیکھ رہا ہو۔۔۔اس کی آنکھوں میں محبت کا وہی خمار تھا ۔خم دار پلکوں پر وہی خواب سجے تھے۔ کتنا حسین چہرہ ہے، لگتا ہی نہیں کہ کبھی دھوکا بھی دے سکتا ہے محبت کو,
نہیں !مجھے تم سے محبت نہیں ہے ۔تمہاری آنکھوں میں صرف فریب ہے ،دھوکا ہے۔ تمہارے چہرے کی مسکراہٹ طنزیہ ہے ۔۔۔تمہاری پلکیں کسی خنجر کی طرح میرے دل کو چیر رہی ہیں۔ تم مجھ پر ہنس رہے ہو؟؟ نہیں میں تمہیں ہنسنے نہیں دوں گی۔ اس نے وہ آخری تصویر بھی ختم کردی۔ وہ گہری سانسیں لے رہی تھی۔اسی دوران کمرے کا دروازہ کھلا اور شہباز اندر داخل ہوا۔
اسلام و علیکم, پہلی بار اس نے شہباز کے منہ سے سلام سنا تھا اسی لیے وہ حیرت سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
جواب نہیں دو گی سلام کا؟ جواب نہ پا کر شہباز نے سوال کیا مگر وہ پھر بھی خاموش رہی۔
لگتا ہے ساری رات سوئی نہیں تم۔ شہباز نے معنی خیز نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔وہ ان نظروں کا سامنا نہیں کر پارہی تھی۔
محبت چیز ہی ایسی ہے ۔۔۔بڑوں بڑوں کی نیندیں اڑا دیتی ہے ۔میں بھی نہیں سویا پوری رات۔ جواب نہ پا کر وہ پھر بولا
نہیں آیا نہ رات کو وہ؟؟ کیا نام ہے اس کا؟ ہاں عامر! ۔۔۔پوچھا نہیں اس سے کہ کیوں نہیں آیا وہ رات کو؟ شہباز اس کے قریب آکرپوچھا۔
شہباز کی بات سن کر اس کا وجود حرکت میں آیا۔ اس نے جلدی سے منہ پھیر لیا ۔شہباز کی بات مندر کی گھنٹی کی طرح اس کا کانوں میں گونج رہی تھی۔ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی۔ اسے لگا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔
حیرانگی ہورہی ہے نا ۔۔۔؟مجھے بھی ہوئی تھی ،جب اس نے محبت کو بیچنے کی بات کی تھی۔ پہلے میں نے سوچا تھا کہ تمہیں کچھ نہ بتاؤں ۔۔۔لیکن پھر تمہاری اداس صورت دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں جارہا, کیا کروں محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔ اس نے شان بے نیازی سے کندھے اچکائے۔
دیکھو سحر, کچھ دیر بعد میرا اور تمہارا نکاح ہو جائے گا، اور میں نہیں چاہتا کہ جو لڑکی میری زندگی میں آئے اس کے دل میں کسی اور کی یادیں ہو۔ اس بار اس نے سحر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ،جبکہ وہ ابھی تک کشمکش میں کھڑی تھی۔ اس کی چھٹی حس اُسے کسی طوفان کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔ کسی انہونی کا احساس دلا رہی تھی۔
رات دو بجے کے قریب اُس کا فون آیا تھا مجھے, اس نے مجھے بتایا کہ تم گھر چھوڑ کر آرہی ہو اس کے پاس۔
جھوٹ بول رہے ہو تم! وہ بے ساختہ بولی, وہ رات مجھے لینے نہیں آیا یہ سچ ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی کوئی مجبوری ہو۔۔۔ لیکن وہ کبھی بھی تمہیں فون نہیں کرسکتا۔۔۔ اور اس کے پاس تمہارا کوئی فون نمبر بھی نہیں ہے۔۔۔ اس لیے اب جاؤ یہاں سے۔ جب میں تم سے شادی کے لیے تیار ہوں تو پھر نئے نئے قصے گھڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
اس نے نہایت سرد مہری سے شہباز کو دیکھے بغیر جواب دیا۔
لیکن یہ تو سچ ہے نا کہ صوفی ایک دن اُسے گھر چھوڑنے گیا تھا! اس نے صوفی سے میرا نمبر لیا تھا ۔۔۔یقین نہ آئے تو صوفی سے پوچھ لینا۔
نہیں, یہ نہیں ہوسکتا ۔وہ بے یقینی کے عالم میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔
دیکھو سحر, میں جانتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے نفرت ہے، لیکن میں نفرت نہیں کرتا تم سے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے گھر سے جانے والی بات صرف ہم دونوں کے درمیان رہے گی ۔۔۔بدلے میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تم اسے اپنے دل سے نکال دو۔شہباز اسکے پاس آکر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
اس نے کہا کہ وہ ملک سے باہر جانا چاہتا ہے ۔۔۔جس کیلئے اُسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ اگر میں اُسے معقول معاوضہ دے دوں تو وہ تمہیں واپس گھر جانے کا کہہ دے گا ۔میں چاہتا تو تمہیں خود بھی روک سکتا تھا جانے سے۔۔۔ زبردستی سے ہی سہی! لیکن اس طرح تم کبھی بھی اُسے بھلا نہیں پاتی۔۔۔ اس لیے میں نے اُسے 25 لاکھ روپے کا چیک دے کر اس کی محبت اس کے منہ پر ماری۔
اس نے تمہاری اندھی محبت کا فائدہ اٹھایا سحر, وہ جانتا تھا کہ تم اسے پانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہو۔ اس وقت مجھے پہلی بار تم پر ترس آرہا تھا۔ یا شائد میرے دل کے کسی کونے میں محبت جاگ گئی تھی۔ اسے بھول جاؤ سحر! وہ تمہارے قابل نہیں تھا! جو شخص محبت کی قیمت لگائے، اس سے اچھی تو نفرت ہے ۔۔۔کم سے کم کھل کر سامنے تو آتی ہے۔
سحر سرجھکائے بوجھل نظروں سے فرش کو دیکھتی جارہی تھی ۔’’تم نے مجھے مٹی میں ملا دیا عامر‘‘ وہ اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔۔۔ اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روی دی۔ شہباز نے بھی اسے کھل کر رونے دیا۔ کیونکہ نکاح سے پہلے سحرکے دل کاہلکا ہو جانا ضروری تھا۔ وہ اسے اس کی پوری توجہ کے ساتھ پانا چاہتا تھا
کچھ دیر بعد وہ وہاں سے اٹھ کر نیچے چلا گیا۔ دروازے کے باہر اسے رخشندہ ملی تھی جس کے سلام کا جواب اُس نے نہیں دیا تھا۔ کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ رخشندہ نے اس کی اور سحر کی باتیں سن لی تھیں۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی وہ غور سیا پنا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ رخشندہ نے اسے پوری محنت سے تیار کیا تھا۔ میک اپ نے کسی حد تک اس کے چہرے کی تھکان کو چھپا دیا تھا ۔میک اپ سے چہروں کو تو بدلا جاسکتا ہے ،لیکن دل کونہیں۔ وہ اندر ہی اندر سے جل رہی تھی ۔پنکھڑیوں جیسے خوبصورت ہونٹ خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ گہرے جامنی رنگ کے لہنگے نے اس کے حسن کو مزید نکھار دیا تھا۔ جھیل جیسی گہری آنکھوں کی رونق ابھی تک غائب تھی۔ اس کی آنکھوں میں لگے حسین خوابوں کے لینز شائد دھندلے پڑ گئے تھے۔ نیکلس، چوڑیاں، برسیلٹ، ائیر رنگز سے لیس جیسے وہ کسی مشکل محاذ پر جارہی ہو۔ اس کا دم گُھٹ رہا تھا۔ زیورات تو اسے ہمیشہ سے ہی پسند نہیں تھے۔ اس کی پسند نا پسند سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جب اسے ایسے شخص کی بیوی بننا ہے جس سے وہ ہمیشہ نفرت کرتی آئی تھی۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو سحر! ایک عورت ہوتے ہوئے میں ہی نظر نہیں ہٹا پا رہی تو بھائی کا پتہ نہیں کیا حال ہوگا۔ رخشندہ نے اس کی پلکوں پر مسکارے کی آخری کوٹنگ کرتے ہوئے کہا، مگر وہ خاموش رہی۔
ماضی کو بھول جاؤ سحر, جو شخص کبھی تمہارا تھا ہی نہیں۔۔۔ اس کے لیے خود کو کیوں مار رہی ہو؟ بھابھی نے میک اپ کٹ بند کرتے ہوئے کہا۔
ماضی؟ سحر نے سوالیہ لہجے میں زیر لب دہرایا! ابھی تو کچھ ہی گھنٹے ہوئے ہیں۔۔۔ کچھ ہی دیر پہلے میرے دل میں صرف وہی دھڑک رہا تھا میں نے خود کو دلہن کے روپ میں صرف اس کیلئے سوچا تھا۔ وہ ڈر جاتا، مجھ سے شادی سے انکار کردیتا ،حتی کہ مر بھی جاتا تو میں اسے شائد بھلا دیتی ۔۔۔لیکن جس طرح سے اس نے مجھے میری محبت سمیت بیچا ہے۔۔۔ وہ میں کبھی بھلا نہیں پاؤں گی۔ اسے نہ پانے کا دکھ نہیں۔۔۔ اس کا ہونے کی خواہش پر افسوس ہے مجھے، اپنے اُس ہر قدم پر ملال ہے جو میں نے محبت سمجھ کر اٹھایا! اور آپ کہہ رہی ہیں کہ میں سب کچھ بھول جاؤں؟ اس کے بولنے کا انداز شکستہ تھا۔
ہر گزرتا ہوا لمحہ ماضی بن جاتا ہے، اور وہ لمحہ اب گزر گیا ہے ۔۔۔ضروری نہیں ہے کہ ماضی برسوں یا صدیوں پر محیط ہو! شکر کرو سحر کہ گھر سے جانے کے بعد تم پر اس بدبخت کی حقیقت کھل گئی ا۔۔۔ور تم نے کچھ نہیں کھویا،سوائے ایک دھوکے باز اور لالچی شخص کے ۔ محبت کا کیا ہے ،پھر ہو جائے گی۔ رخشندہ نے اسے کے گلے میں سجے نیکلس کو درست کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔
پتہ نہیں اس میک اپ کے پیچھے چھپے چہرے کو شہباز قبول کر پائے گا کہ نہیں! اُس نے سوچا! جو بھی ہو اس نے آسانی سے جیت لیا ہے مجھے, میرے نفرت بھرے لہجے میرے کسی کام نہیں آئے۔ وہ مجھے ہمیشہ یونہی دیکھتا تھا جیسے اسے پورا یقین ہو کہ میں اسی کی جاگیر ہوں,! مرد تھا وہ۔۔۔ اور مرد کبھی نہیں ہارتا۔۔۔ صرف عورت ہارتی ہے۔ عامر نے جو چاہا، اسے مل گیا۔۔۔ اس کے سارے خواب پورے ہوگئے ۔شہباز نے مجھے چاہا ،سو پا لیا, مگر ان دونوں کے درمیان ہار صرف میری ہوئی ۔۔۔میں اپنی انا سمیت۔۔۔ ا پنی محبت سمیت، منہ کے بل گر گئی ۔۔۔ وہ دونوں اپنی جیت کا جشن مناتے ہوئے اس دھول میں سے گزر گئے۔
رخشندہ, ابھی تیار نہیں ہوئی سحر, امی نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آواز دی۔
ماشااللہ, بہت خوبصورت لگ رہی ہے میری بیٹی, امی نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔ بس خدا تمہارے نصیب بھی یونہی خوبصورت کردے۔
میک اپ سے تو چہرے خوبصورت ہوتے ہیں امی۔۔۔ نصیب نہیں ۔اس کی آواز بھر آئی, اور وہ دیوانہ وار امی سے لپٹ گئی۔ مجھے معاف کردیں امی میں نے آپ کو بہت پریشان کیا۔ میں بے وقوف تھی ۔۔۔میں نے آپ کی تربیت اور محبت کے سامنے اپنی خود غرضی کو اہمیت دی ۔۔۔رشتوں کا بھرم چور چور کردیا۔ وہ زاروقطار رو رہی تھی۔
ماں اپنی اولاد سے ناراض نہیں ہوتی ۔ وہ ہمیشہ چاہتی ہے کہ اس کی اولاد سکھی رہے۔ تم نے جو بھی کیا وہ شائد خدا کی طرف سے تھا۔ اس نے تمہاری آنکھیں کھول دیں۔ بس اب رونا نہیں میری بچی۔ انہوں نے سحر کا چہرہ اپنی ہتھیلوں میں بھرتے ہوئے کہا جبک۔ رخشندہ کی بھی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔ وہ جب گھر سے رخصت ہوئی تھی تو وہاں کوئی ماں موجود نہیں تھی گلے لگانے کیلئے ۔۔۔اس کے سر پر کسی نے ہاتھ نہیں رکھا تھا۔ ابا جس طرح زمینوں کا سودا کرتے ہیں، ویسے ہی مجھے بھی کسی اور کے حوالے کردیا تھا۔ اس نے سوچا۔
چلو رخشندہ !سحر کو نیچے لے آؤ۔ مولوی صاحب کب سے انتظار کررہے ہیں۔
رخشندہ نے ٹشوپیپر سے اسکی آنکھیں نرمی سے صاف کیں اور اسے کندھے سے پکڑ کر سیڑھیاں اترنے لگی۔
وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے اپنے بے جان وجود کو گھسیٹتے ہوئے نیچے پہنچی۔ اس نے آنکھیں جھکائی ہوئی تھیں۔ اس کی نظر عادل بھائی پر پڑی، وہ ابھی تک اپنے نائٹ سوٹ میں ہی تھے ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہ مناظر گھومنے لگے، جب عادل کی شادی ہوئی تھی۔ پورا گھر روشنیوں سے نہایا ہوا تھا۔ ہر طرف پھولوں کی بہار تھی۔ ہر طرف جشن کا سماں تھا اور پھر ایک نظر اس نے رخشندہ بھابھی پر ڈالی ۔مرد اتنی دھوم دھام سے عورت کو کیوں اپناتے ہیں اگر بعد میں ان کو اپنا غلام ہی بنانا ہوتا ہے۔ اس نے سوچا۔
ٹھیک ہی تو کرتے ہیں وہ ۔۔۔عورت ان کی سلطنت ہوتی ہے اور سلطنت کے مل جانے پر بادشاہ جشن منایا کرتے ہیں۔۔۔ وہ ساری زندگی اس پر حکومت کرتے ہیں۔ وہ ظلم کرتے ہوئے ہمیشہ بڑی شان سے کہتے ہیں کہ خدا اگر اپنے علاوہ کسی کو سجدے کا حکم دیتا تو وہ عورت کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا ۔۔۔حالانکہ خدا نے ایسا کوئی بھی حکم نہیں دیا وہ دھیرے سے شہباز کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گئی۔
نکاح شروع کرو مولوی, قادر چچا نے سخت لہجے میں مولوی صاحب کو نکاح شروع کرنے کا کہا,
نکاح کیا تھا۔۔۔ ایک رسم ہی تو تھی۔۔۔ جس میں عورت کو سوائے چند ہزار روپے حق مہر کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔۔۔ اور کبھی کبھی تو با چند روپوں میں ہی طے ہوجاتی ہے ۔عمل تو دور کی بات عورت کو تو نکاح میں اس کے حقوق پڑھ کر بھی نہیں سنائے جاتے۔ اس نے بھی بنا کچھ پوچھے، بنا کچھ جانے ، صفحات پر دستخط کردئیے تھے۔۔۔اسکے حصے میں تو تین بار ’’ قبول ہے‘‘ کی رسم بھی نہیںآئی تھی۔ اور تو اور کسی کے منہ سے مبارک ہو، مبارک ہو، بھی نہیں سنا اس نے۔
کچھ دیر بعدوہ بے دلی سے چلتی ہوئی باہر گاڑی کے پاس چلی آئی تھی ،جہاں صوفی کھڑا انتظار کررہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اس نے نہایت احترام سے گاڑی کا دروازہ کھول دیا تھا۔وہ شہباز کے ساتھ بیٹھ گئی، جبکہ قادر چچا ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر موجود تھے۔ سحر کی نگاہیں سامنے دروازے پر تھیں۔ اسے شائد ابھی بھی انتظار تھا کہ عادل بھائی آئیں گے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہیں گے کہ ہمیشہ خوش رہو۔ اسے کوئی دعا دیں گے۔۔۔ باپ کی کمی پوری کریں گے۔ اور پھر عادل بھائی تیز تیز چلتے ہوئے گاڑی کی طرف آئے، سحر کی آنکھوں میں اُمید لہرانے لگی۔
صوفی, شام کو فارغ ہو کر آجانا ۔۔۔مجھے ذرا زمینوں پر جانا ہے, کچھ حساب کتاب باقی ہے, عادل نے کہا اور واپس اندر چلا گیا ۔اور سحر دیکھتی رہ گئی۔ اس گھر سے جڑا اس کا آخری خواب بھی ٹوٹ گیاتھا۔ قصور اس کا ہی تھا کیونکہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کا کیا حشر ہوگا ،وہ خواب دیکھتی ہی کیوں تھی ۔صوفی نے گاڑی سٹارٹ کی۔ ریورس ہوتی ہوئی گاڑی کے شیشے میں سے اس نے بھابھی کو دیکھ لیا تھا ۔جو بالکونی میں حاجرہ کے ساتھ کھڑی اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔ امی اپنے کمرے میں موجود، نوافل ادا کرنے میں مصروف تھیں۔
ایک نگاہ اس نے دوسری منزل پر اپنے کمرے کی بند کھڑکیوں پر ڈالی ۔اس کی اب تک کی ساری زندگی انہیں کھڑکیوں کے پیچھے گزری تھی، اور باقی زندگی بھی اُسے ایسی ہی کھڑکیوں کے پیچھے گزارنی تھی۔ اس نے حسرت بھری نگاہوں سے پورے گھر کو دیکھا اور پھر گاڑی آگے بڑھ گئی۔
Comments