صرف ایک فیصلہ
- Qalmkar
- Dec 29, 2018
- 5 min read
وہ نوجوان نہ صرف مایوس ہی نہیں بلکہ نا امید بھی تھا ۔ اسی سبب اس نے کوشش کرنی چھوڑ دی تھی۔ ۔ اس کے لہجے میں دنیا بھر کی تھکاوٹ اتری ہوئی تھی ۔ ایسا ہوتا بھی کیوں نہیں کیونکہ جب آپ ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہوں جن کے والدین ساری زندگی یہ خواب بننتے رہیں کہ ان کا بیٹا ایک دن کسی اچھی پوسٹ پر ہو گا اور ان کے دن پھر جائیں گے ۔ اس کے دن تو پھر گئے تھے مگر کچھ الگ انداز میں۔ وہ ایک سفید پوش گھرانے کا اکلوتابیٹا تھا والد صاحب عدلیہ کے کسی شعبے سے وابستہ تھے اور ان کی ساری زندگی کی جمع پونچی اس کی شکل میں میرے سامنے تھی۔ اس نے اچھے گریڈ سے بی کام کیا ہوا تھا مگر پاکستان میں نوکری تلاش کرنے کے بعد اپنی قسمت آزمانے یہاں آیا ہوا تھا۔ وہ مجھ تک میرے ایک دوست کے حوالے سے پہنچا تھا۔ ان دنوں میں اپنی کمپنی کےلئے ایک تجربہ کار اکائونٹنٹ کی تلاش میں تھا کہ میرے دوست نے اس کی اتنی سفارش کہ کہ میں اس کو بلانے پر مجبورہو گیا حالانکہ میں نے سی وی دیکھنے کے بعد کہا بھی تھا کہ مجھے کم از کم پانچ چھ سال کے تجربہ کار آدمی کی ضرورت ہے۔ وہ بہت ہی دل گرفتہ انداز میں میرے سامنے وہی کرسی پر بیٹھا تھا۔ سونے پر سہاگہ وہ کسی ّرشتہ دار " نے دبئی کا تین مہینے کا وزٹ پانچ لاکھ روپے میں لے کر دیا تھا۔
سر مجھے معلوم ہے کہ یہاں بہت مشکل ہے کام ہونا۔ مجھے نوکری نہ ملے تو بہت برا ہو گا ۔ میں اپنے والدین کا سامنا کیسے کروں گا میرے لئے اس سے مرجانا اچھا ہو گا۔ وہاں پر میرے ابو مجھے گارمنٹس کی دکان ڈال کر دینے والے تھے مگر مجھ میں بزنس کرنے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی ہنر ہے ۔ میں بہت سارے پیسے ایک دم ہی کمانا چاہتا ہوں ۔ اگر پاکستان میں دکان ڈال کر بیٹھا رہا تو دس سال اور گزر جائیں گے ۔ میں جانتا ہوں کہ میں ایسا نہیں کر پائوں گا اس لئے سر آپ کی بہت ہی مہربانی ہو گی کہ آپ مجھے کسی طرح بھی یہ نوکری دلوا دیجیئے۔ اس نے اپنے لہجے میں بے انتہا ممنونیت سمیٹ کر کہا۔
تم جون پاول جونز کو جانتے ہو۔ میرے اس غیر متوقع سوال پر وہ چونک اٹھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ ایک ناکام شخص تھا کم از کم وہ تو یہی سوچتا رہتا تھا ۔ وہ بھی تمہاری طرح جا کر نوکری کےلئے گڑگڑاتا تھا مگر اس کے اندر کا آدمی اس کو ہر وقت یاد دلاتا رہتا تھا کہ اس کی منزل کچھ اور ہے مگر وہ ہر بار اپنے اندر کی آواز کو سن کر خاموش کرا دیا کرتا تھا۔ اس کا باپ اور ماں دونوں تارکین وطن تھے۔ ابھی وہ دوسال کا ہی تھا کہ اس کے والدین میں طلاق ہو گئی ۔ اسکی ماں نے اس کو اس کے بھائی کوگورنمنٹ کی تحویل میں دے دیا وہ ان کا پالنے کا خرچہ اٹھانے سے قاصر تھی ۔ سکول کے بعد وہ امریکن نیوی میں کام کرتا رہا ۔ پھر وہ صفائی والا بن گیا ۔ اس کو چھوڑ کر وہ ایک انساکلوپیڈیا کا سیلز مین بن گیا پھر وہاں سے وہ انشورنس سیلز مین بن گیا۔ پھر وہ گھر گھر جا کر شیمپو سیل کرنے لگ گیا۔ اس دوران اس کے پاس نہ رہنے کو جگہ تھے اور نہ ہی کھانے کو پیٹ بھر کر کھانا۔ اس کے پاس ایک پرانی کار تھی جہاں وہ سوتا تھا اور رہتا تھا۔ اس طرح کرتے کرتے وہ امریکہ کے مشہور بالوں کے برانڈ لوریل میں بھرتی ہو گیا ۔ مگر اسے وہاں سے بھی اختلافات کی بنیاد پر نکال دیا گیا۔ یہاں تک 1980 آ گیا اور اس نے ایک دن سوچا کہ اگر وہ اس طرح کرتا رہا تو شاید وہ ساری زندگی اس کار سے آگے نہ بڑھ سکے۔ چنانچہ اس نے اس دن اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے اگلے دن سات سو ڈالر کا قرضہ پکڑا اور اپنے ایک حجام دوست کے ساتھ مل پر جان پائول مچل سسٹم کی بنیاد رکھ دی ۔ اس کے بعد اس نے یہ نہیں سوچا کہ میں نے کیسے کرنا ہے اور کب کرنا ہے اس کے دماغ پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ میں نے اپنا کل بدلنا ہے۔ صرف نو سالوں میں اس کی کمپنی کی سیل 800 ملین ڈالر تک پہنچ چکی تھی اور آج کی تاریخ میں اس کی کمپنی کا تخمینہ 2.6 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ میں خاموش ہو کر اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا ۔ اس کی آنکھوں میں الجھن تھی اور چہرے پر حیرت۔ یقیناً وہ مجھ سے یہ کہانی سننے نہیں آیا تھا وہ تو صرف نوکری کی بات کرنے آیا تھا۔
سر اس کہانی سے میرا کیا تعلق ہے ۔ اس نے الجھن زدہ لہجے میں مجھ سے پوچھا ۔ میں نے ایک قہقہہ لگایا اور سامنے پڑے چائے کے کپ سے آخری گھونٹ لیا ۔ دیکھو میرے بھائی جب تک تم اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرو گے ۔ ہم لوگوں میں یہی ایک خطرناک بیماری ہے ۔ ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہی نہیں ہے اور اپنی طرف سے فیصلہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں کہ میں اس کام کے قابل نہیں ہوں۔ ہم کوشش کرنے سے پہلے ہی رزلٹ دے دیتے ہیں کہ ہم ناکام ہوں گے ۔ ہم بیج ڈالنے سے پہلے ہی طے کر لیتے ہیں کہ پودا نہیں پوٹے گا۔ دنیا میں جتنے بھی لوگوں نےترقی کی ہے ان کی زندگی کا پہلا اصول یہی رہا ہے کہ انہوں نے ہار نہیں مانی اور انہوں نے کوشش کی اور بعد میں رزلٹ نکالا۔ انہوں نے سب سے پہلے آپ سے جنگ کی ۔اپنے اندر کی جنگ کو جیتا ،پھر دنیا میں کامیاب ہوئے ۔ہم لوگ ساری زندگی صرف ایک فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں اپنے اوپر یقین ہی نہیں ہوتا ہے ۔ ہم نے پہلے س ہی طے کر رکھا ہوتا ہے کہ ہم ایک ناکام ، بے کار اور نااہل انسان ہیں۔ میرے خیال میں تمہیں اپنے والد صاحب کے پاس جانا چاہیے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر کہنا چاہیے کہ ابو آپ دکان کر ڈال دیں مجھے میں انشاء اللہ اس کو چلائوں گا ۔ جس دن تم نے یہ ایک فیصلہ کر لیا اس کے بعد تم نے اپنی اندر کی جنگ جیت لو گے اور اس کے بعد دنیا سے کی جنگ میں بھی ناکام نہیں رہو گے۔ یہ دنیا صرف ان کی ہے جو اپنے اوپر یقین رکھتے ہیں ۔ جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ میں نے خالی کپ ٹیبل پر رکھا اورواپس مڑ گیا۔
Comments