top of page

قلمکاربلاگ

سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر

Asif - Pic.jpg

قرطاس و قلم سے ایک بہت پرانا رشتہ رہا ہے اور اتنا عرصہ بھی گزرنے کے بعد یہ تعلق تھوڑا کمزور ہو گیا ہے مگر ختم بالکل نہیں ہوا ہے ۔ اس تیز رفتار دنیا میں مجھ جیسے ناقص آدمی کے اگر دو چار ٹوٹے پھوٹے الفاظ کسی کو بھا گئے اور اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی لے کر آئے تو میرے لئے ہفت اکلیم کی دولت سے زیادہ ہے ۔ یہی اس بلاگ کا مقصد ہے ۔ آپ کی رائے ہمیشہ کی طرح میرے لئے آب حیات کی مانند رہے گی۔ 

بہت شکریہ ۔ قلمکار

شکریہ ! عاطر شاہین

  • Writer: Qalmkar
    Qalmkar
  • Dec 8, 2018
  • 5 min read

عاطر شاہین کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب اس کی کہانیاں میری کہانیوں کے ساتھ پھول اور کلیاں میں شامل اشاعت ہوتی تھیں۔ یہ میں اس زمانے کی بات کر رہا ہوں جب انٹرنیٹ اتنا عام نہیں ہوا تھا ۔ کتابیں، رسائل وجرائد اور مطالعہ ہی میری واحد لت تھی ، میری دوسری لت لکھنے کی لت تھی جو نئی نئی شروع ہوئی تھی ۔ پھول اور کلیاں اس وقت بچوں کے نوجوان ادیبوں کی نرسری کے طور پر جانا جاتا تھا میں بھی اس میں بھر پور طریقے سے لکھ رہا تھا اور عاطر شاہین بھی اس میں بھر انداز میں چھپ رہا تھا۔ چونکہ اس کی کہانیاں میری کہانیوں سے ممتاز ہوتی تھیں تو میں کسی حد تک اس کو اپنا دشمن خیال کیا کرتا تھا۔ چنانچہ میں نے عاطر شاہین سے ملنے کا سوچا ۔ میری یہ خواہش محترم کمال ایوب صدیقی نے پوری کر دی کیونکہ وہ عاطر شاہین کو ذاتی طور پر جانتے تھے، انہوں نے مجھے عاطر شاہین کے ٹھکانے کے بار میں بتایا اور بتایا کہ فلاں وقت بہتر رہے گا ملاقات کےلئے ۔ یوں میں پہلی بار عاطر شاہین سے ملا۔

میری عاطر شاہین سے ملاقات بھی ایک دلچسپ واقعہ تھی۔ میں شام کو اپنی نوکری ختم کر کے کمال ایوب صدیقی کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچ گیا۔ مذکورہ ایڈریس پر ایک ملکی روزنامے کا دفتر واقع تھا اور عاطر شاہین وہاں پر بطور پروف ریڈر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ میں نے استقبالیہ پر جا کر کہا عاطر شاہین سے ملنے کا پوچھا تو انہوں نے سرے سے انکار کردیا کہ اس نام کا کوئی آدمی یہاں کام کرتا ہے ۔ اب میں عاطر شاہین کا اصل نام نہیں جانتا تھا مگر خوش قسمتی سے میں یہ جانتا تھا کہ وہ پروف سیکشن میں کام کرتے ہیں ۔ میں نے فوراً وضاحت پیش کی تو اس نے تھوڑا سا سوچا اور بولا اچھا اچھا میں سمجھ گیا کہ آپ "اس" کو پوچھ رہے ہیں ۔ "اس" کی جگہ انہوں نے عاطر شاہین کا اصل نام بتایا تو مجھے اس کا اصل نام پتہ چلا۔ تھوڑی دیر بعد ہم دونوں ساتھ ہی بنے ایک اوپن ائیر چائے خانے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اس چالیس منٹ کی ملاقات میں میں نے عاطر شاہین کے اندر دو باتیں دریافت کیں ۔ پہلی کہ اس کے اندر ریا کاری ، بناوٹ ، تکبر ، غرور نام کا نہیں تھا۔ دوسری بات کہ وہ بندہ لکھنے کے معاملے میں جنونی تھا۔ اس کو اپنی فیملی سے زیادہ اس بات کی فکرہوتی تھی کہ کل اس نے کہانی پوری کر کے ایک معروف ماہنامے کو بھیجنی ہے۔ س کے بعد میری دونوں باتیں من وعن درست ثابت ہوئیں۔

عاطر شاہین کے اندر جہاں یہ دونوں باتیں بہت اچھی ہیں وہاں وہ اپنی سادگی کی وجہ سے زندگی میں کوئی خاص ترقی نہیں کر سکا ۔ کیونکہ وہ دوسرے ہم عصروں کی طرح "جنگی چالیں" یا چاپلوسی جیسے وصف سے محروم رہا ہے اور اس وجہ سے وہ ہمیشہ ستارے کی طرح چمکتا رہا مگر کبھی کسی سے کوئی فائدہ لینے کی کوشش نہیں کی ۔ میں ہمیشہ اس بات پر کڑھتا رہتا تھا اس سے جھگڑا کرتا رہتا تھا کہ دیکھو کہ ہمارے کیسے کیسے نام نہاد ادیب جن کو شاید ابھی تک لکھنا بھی نہیں آتا ہے وہ ابھی صاحب کتاب بھی ہیں اور صاحب ایوارڈ بھی ۔ تو وہ مجھے ایک ہی جواب دیتا تھا کہ میں ایک اصل لکھاری ہوں اور آصل لکھاری کبھی بھی جا کر کتاب چھپوانے کےلئے کسی کے "ترلے" نہیں کرتا اور نہ ہی اپنی جیب سے پیسے لگا کر کتاب چھپوانے کی غلطی کرتا ہے ۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑھتا کہ ایک مہینے میں میرا ایک پڑھنے والا بڑھے گا مگر وہ میرا پڑھنے والا ہو گا جو میرا نام دیکھ کر میری تحریر پڑھے گا۔ اس لئے کسی دانشور نے کہا تھا کہ وہ ادب جس نے ادب کی تاریخ میں کلاسیک کا درجہ حاصل کیا ہے وہ ہمیشہ غربت کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے۔ تو یہاں بھی یہی صورتحال یہ تھی ۔ عاطر شاہین ایک دہائی اپنی معاشی جنگ اور اپنے شوق اور جنون کو ساتھ لے کر قدم بہ قدم چلتا رہا اور چلتا ہی رہا یہاں تک کہ 2017 آ گیا۔

2017ء میں میرے شہر کے ایک عظیم ناول نگار جناب مظہر کلیم ایم اے کی وفات کے بعد عمران سیریز پڑھنے والوں کےلئے ایک بری خبر تھی کہ انہیں اب مظہر کلیم ایم اے جیسے ناول پڑھنے کو نہیں ملیں گے ۔ اس وقت میں یوسف برادران (عمران سیریز کے پبلشرز) کو عاطر شاہین جیسا ناول نگار مل گیا ۔ عاطرشاہین کے اندر کے جنون کو دیکھتے ہوئے انہوں نے عاطر شاہین کو دو تین آزمائشی ناول لکھ کر دینے کو کہا۔ اس نے ایک مہینے کے اندر اندر ان کا مطالبہ پورا کر دیا تو اس کے بعد جو جیسے سلسلسہ شروع ہو گیا ۔ اب تک 50 سے زائد ناول لکھ چکا ہے اور بچوں کی ان گنت کہانیاں چھپ کر مارکیٹ میں آ چکی ہیں ۔

اسی سال جب میں پاکستان میں تھا تو میں اپنے مطالعہ کےلئے ایک بک سنٹر پر کچھ کتب دیکھ رہا تھا وہاں پر مجھے عاطر شاہین کے ناول دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور میں نے اس کا ناول ہاتھ میں پکڑ کردیکھا اور ایک گہری سانس لے کر عاطر شاہین کا شکریہ ادا کیا۔ یہ شکریہ میری طرف سے نہیں میری طرح کے کئی اردو علم وادب کے پڑھنے والے اور ادب ک شیدائیوں کی طرف سے ہے کہ عاطر شاہین نے نہ صرف عمران سیریز کے پڑھنے والوں کو مایوس نہیں کیا تھا بلکہ وہ آنی والی نسلوں کےلئے کتب بینی کےلئے معیاری کہانیاں تخلیق کر رہا تھا۔ میں نے اطمینان کی سانس لی کہ جب تک ہمارے معاشرے میں عاطر شاہین جیسے قلمکار موجود ہیں ہمارے قوم کتاب کی مہک سے نابلد نہیں ہو گی ۔ سرکاری ادارے اور ادب کی سرپرستی کے جھوٹے دعویداروں ، ادب کے ایوارڈز کی بندر بانٹ کرنے والوں نے اچھا کیا کہ عاطر شاہین کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا ، کوئی تمغہ نہیں دیا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو شاید عاطر شاہین آج کا عاطر شاہین نہیں ہوتا تھا وہ بھی کوئی میری طرح کا عام لکھاری ہوتا اور ایوارڈ لے کر ساری زندگی اس کا ڈھول بجاتا رہتا۔ مگرانہوں نے عاطر شاہین کو ایوارڈ اور تمغہ نہ دے کر مجھ جیسے علم و ادب کے حقیر طالب علم کو عاطر شاہین کو شکریہ کہنے کا موقع دیا ہے ۔ تو میں بڑی دلیری سے اور بڑی خوشی سے ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ " شکریہ ! عاطر شاہین "


Comments


Contact

Your details were sent successfully!

Colorful Book Spines

Subscribe

+971507869222

  • facebook

©2018 by qalmkar

bottom of page